کراچی (ویب ڈیسک) : سندھ یونائیٹڈ پارٹی کی جانب سے 15 فروری کو سکھر سے شروع ہونے والا سندھ مارچ پیپلز پارٹی کی بیڈ گورننس کے خلاف اور سیلاب زدہ سندھ کی بحالی، سیاسی، سماجی اور معاشی بحالی کے لیے 33ویں روز کراچی پہنچ گیا۔ جلسہ گاہ اور گردونواح میں ایس یو پی، فنکشنل لیگ اورجئے سندھ کے کلہاڑی والے سرخ پرچم لہراتے رہے ۔اسٹیج پر سائیں جی ایم سید کی بڑی تصویر کے ساتھ سید جلال محمود شاہ اور سید زین شاہ اور دیگر رہنماؤں کی تصاویر آویزاں کی گئیں۔کارکنوں کے ہاتھوں میں سائیں جی ایم سید، سورہیہ بادشاہ اور سید زین شاہ کی تصویریں پرچموں کے ساتھ جھول رہی تھیں۔سندھ مارچ میں مسلسل پیدل چلنے والوں کے پاؤں زخمی اور خون خون تھے۔جلسہ میں تقاریر کے دوران جئے سندھ کے بلند بانگ نعرے گونجتے رہے۔
پریس کلب پہنچ کر احتجاج میں تبدیل ہو گیا۔ جس میں قوم پرست رہنمائوں اور خواتین اور کارکنوں کی بڑی تعداد سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
اجلاس سے سید زین شاہ، اسماعیل شاہ راشدی، ڈاکٹر صفدر عباسی، سردار عبدالرحیم، روشن برڑو، جگدیش آہوجا، امیر آزاد پہنور، امیر علی تھیبو، اعجاز سامٹیو، خاتون رہنما شیبا مغل، طلبہ رہنما زین جتوئی نے بھی خطاب کیا۔
اس موقع پر سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر سید زین شاہ نے کراچی میں سندھ مارچ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھیوں کے قومی وجود، سندھ کے تاریخی تشخص، قدرتی وسائل پر قابض وفاق کے قبضے جیسی گھناؤنی حرکات ہوتی رہی ہیں اور سندھ پر حکمرانی کے حق کو سلب کیا جارہا ہے۔ 2008 سے پیپلز پارٹی ایک غیر ملکی دلال کا کردار ادا کر رہی ہے اور صرف اپنے اقتدار اور پیسے کی خاطر سندھ کو سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر ظلم اور بدانتظامی کے ذریعے تباہ کر رہی ہے۔پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت ہر سال سندھ کے خزانے سے 600 سے 800 ارب روپے کی کرپشن کر رہی ہے۔اس کے علاوہ سندھ کی ساحلی پٹی ہو یا پہاڑی پٹی، کچے کی زمینیں ہوں یا صحرائی خزانے، پیپلز پارٹی کی قیادت اور حکومت انہیں کوڑیوں کے دام بیچتی رہی ہے یا سرکاری مشینری کے ذریعےقبضے کرواتی رہی ہے۔پیپلز پارٹی کی کرپشن اور بیڈ گورننس کی وجہ سے سندھ کا ہر ادارہ تباہ ہو چکا ہے۔کسی بھی ادارے میں قابلیت اور ایمانداری کی بجائے رشوت اور اقربا پروری کا بازار گرم ہے۔عوام کو اہلیت، محنت اور عزت کی زندگی گزارنے کے بجائے مفت خوری، حرام خوری اور بے ایمانی کی راہ پر چلانے کی وجہ سے اخلاقیات اور معاشرتی اقدار بڑی حد تک ختم ہو چکی ہیں۔
زین شاہ کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے سندھ کی حکمرانی پر اختیار ہو یا وسائل پر اختیار وہ دونوں حق سندھ اسمبلی کے ذریعےوفاق کے حوالے کرتی رہی ہے۔دوہرے بلدیاتی نظام کے تحت سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا عمل ہو یا سندھ میں غیر ملکی آباد کاری، پیپلز پارٹی ہمیشہ سندھ کے مفادات کے خلاف کام کرتی رہی ہے۔اس وقت ڈیجیٹل مردم شماری جو وقت سے قبل ہورہی ہے اس کی ذمہ دار بھی پیپلز پارٹی ہے۔ 2017 کی مردم شماری جو ہر طرح سے درست تھی اُسے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نےتسلیم نہیں کیا اور مشترکہ مفادات کونسل میں دوبارہ مردم شماری کرانے کا کہا۔اسی لیے یہ ڈیجیٹل مردم شماری، جس پر پورے سندھ نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے، وہ ہورہی ہے . ایس یو پی کے صدر نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے وفاق کے ساتھ مل کر سندھ کو 2022 کے سیلاب میں جان بوجھ کر ڈبو دیا، تاکہ انہیں بیرونی ممالک سے اربوں ڈالر کی امداد مل سکے۔سندھ میں لاکھوں ایکڑ اراضی تباہ کر ادی گئی، ایک اندازے کے مطابق 30 لاکھ مکانات تباہ ہوئےاور ایک سے ڈیڑھ لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، اس کی ذمہ دار بھی پیپلز پارٹی ہے۔پاکستان کی موجودہ مخلوط وفاقی حکومت اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی خراب ساکھ کی وجہ سے بین الاقوامی امدادی اداروں اور ممالک سے ملنے والی امدادکو بھی اسے کرپشن اور اقربا پروری کی نظر کیا گیا ہے۔
زین شاہ نے کہا کہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی سمجھتی ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کے لیےایک ایسا ناسور بن چکی ہے کہ اگر سندھ کے عوام کو اس سے نجات نہ ملی تو سندھ کی سیاسی، سماجی اور معاشی بحالی اورتعمیر نو ممکن نہیں ہوسکے گی۔جب تک پیپلز پارٹی اقتدار میں رہے گی وہ نہ صرف سندھ کو تباہ کرے گی بلکہ پاکستان کا خزانہ خالی رہے گا۔اسی لیے ہم نے سندھ میں سیاسی شعور کیلیے اور پیپلز پارٹی کی خراب حکمرانی کو بے نقاب کرنے کے لیے 15 فروری کو سکھر سے آج 19 مارچ کو کراچی تک مارچ کیا۔اس پیدل مارچ میں ہماری جانوں کو تھوڑی بہت تکلیف ضروری پہنچی، ہزاروں کارکنوں کے پاؤں سچھالے چھالے ضرور ہوئے، لیکن ہماری یہ تکلیف سندھ کی محبت کے سامنے کچھ بھی نہیں. یہ ایک چھوٹی سی کوشش جو ہم نے کی ہے ،ہمیں یقین ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہوں گے، کیونکہ باطل کو صفحہ ہستی سے مٹنا اور حق کو غالب آنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سندھ میں غیروں کی دلال، اسٹبلشمنٹ کی اسپانسرڈ پیپلز پارٹی کی حکمرانی کا خاتمہ ہو ، بے ایمان اور بے رحم و ظالموں کا کڑا احتساب ہو. ان کی ناجائز جائیدادوں کو نیلام کیا جائے۔سندھ کے مالی اور قدرتی وسائل کی ملکیت صوبے کو واپس ملنی چاہیے۔سندھ کی جغرافیائی وحدت کو آئینی طور پر تحفظ دیا جائے۔سندھ کی وحدت زیادہ آزاد ہونی چاہیے اور سندھ میں شفاف طرز حکمرانی ہونی چاہیے۔جس کا انتخاب مقامی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر شفاف طریقے سےمنتخب شدہ اہل اور دیانتدار قیادت کے سپرد کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آخر میں میں سندھ مارچ کے اس احتجاجی جلسے میں شامل ہونے والے تمام شرکاء بہنوں اور بھائیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور میں ان تمام دوستوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے سکھر سے کراچی تک پیدل مارچ کو جاری رکھا۔ انہوں نے عوام سے مخاطب ہوکر کہا کہ ہمارا ساتھ دیں، ہم آپ کو ایمانداری اور انصاف کے ذریعے ایک آزاد، خوشحال اور خودمختار سندھ دیں گے۔
سید زین شاہ کے علاوہ مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما سید اسماعیل شاہ راشدی نے بھی سندھ مارچ کے شرکاء کو خراج تحسین پیش کیا۔اسماعیل شاہ نے کہا کہ سندھ کے عوام مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر آگئے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری حکومت سے مستعفی ہو کر مہنگائی کے خلاف عوامی مارچ میں شامل ہوں ، تب ہم مانیںگے کہ وہ شہید رانی کا بیٹا ہے . انہوں نے کہا کہ ملک میں مہنگائی عروج پر ہے۔پچھلی حکومت میں پیپلز پارٹی نے سندھ حکومت کا پیسہ مہنگائی کے خلاف مارچ پر خرچ کیا لیکن آج سندھ کے غریب اور نادار لوگ اپنا پیسہ خرچ کرکے سندھ مارچ میں شامل ہوئے ہیں۔پیپلز پارٹی کا مہنگائی مخالف مارچ ایک ڈھونگ تھا۔پیپلز پارٹی عوام کو مزید بیوقوف نہیں بناسکتی۔پی ڈی ایم اور سندھ حکومت کو عوام کا کوئی احساس نہیں۔
پیر اسماعیل شاہ راشدی نے مزید کہا کہ انہوں نے کہا کہ میرے دادا شہید صبغت اللہ شاہ راشدی نے وطن عزیز سندھ کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، لیکن برطانوی سلطنت سے مفاہمت نہیں کی۔وہ وطن یا کفن اور آزادی یا موت کا نعرہ لگا کر انگریزوں سے ٹکراگئےاور برطانوی سامراج کو چکنا چور کردیا.
جے ڈی اے کے رہنما ڈاکٹر صفدر عباسی نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کی بیڈ گورننس اور سندھ کی لوٹ مار کے خلاف ایس یو پی کے سندھ مارچ نے ٹھہرے ہوئے پانی میں موجیں پیدا کر دی ہیں. اور یہ لہریں اب پورے سندھ میں پھیل چکی ہیں۔زرداری مافیا نے پیپلز پارٹی اور سندھ کو تباہ کر دیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پچھلی حکومت میںمہنگائی مخالف مارچ کرنے والے آج کہاں ہیں؟انہوں نے کہا کہ سندھ پاکستان میں شامل ہوا تھا اور سائیں جی ایم سید نے قیام پاکستان کی قرارداد سندھ اسمبلی سے پاس کروائی تھی۔سندھ میں رہنے والے ہم سب قوم پرست ہیں۔سندھ وطن کی ترقی،خوشحالی اور خودمختاری کے لیے ہم سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔
ڈاکٹر صفدر عباسی نے مزید کہا کہ جے ڈی اے اور ایس یو پی کا اتحاد ایک نئے انقلاب کی طرف پیش قدمی ہے۔آئندہ انتخابات میں سندھ کے عوام ان چوروں اور لٹیروں کو شکست دیں گے۔سندھ دوست عوام جی ڈی اے میں شرکت کریں۔ہم سب مل کر عوام کو کرپٹ مافیا سے نجات دلائیں گے۔اب فیصلے سندھ کے حق میں ہوں گے۔
مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما سردار عبدالرحیم نے کہا کہ سندھ کو بےدردی سے لوٹا، ڈبویا اور مارا گیا۔مافیا اقتدار پر قابض ہے مگر اب مافیا اور ملک ساتھ نہیں چل سکتے۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام کا جینا مشکل ہو گیا ہے لیکن ظالم حکمرانوں کو اس کا کوئی احساس نہیں۔انہوں نے کہا کہ سندھ مارچ کرپٹ حکمرانوں کے خلاف ریفرنڈم ثابت ہوا ہے۔سندھ کے عوام اپنا فیصلہ دے چکے ہیں۔حکمران ہوش کے ناخن لیںورنہ عوام کی طاقت سے اُن کو نکال باہر کریں گے.سندھ کے مفادات کے لیے ہم سب اکٹھے ہیں کیونکہ سندھ کے مفادات پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں۔پاکستان کو مضبوط کرنا ہے اور سندھ کو مضبوط کرنا پڑے گا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایس یو پی رہنما اور سندھ مارچ کے سالار کارواں روشن برڑو نے کہا کہ سندھ مارچ کو پورے سندھ میں بھرپور پذیرائی ملی. عوام نے اتنا پیار اور خلوص اور محبت دی ہے کہ 33 دن پیدل چلنے کے بعد بھی حوصلے بلند ہیں اور ہم سندھ بچانے کے لیے مزید چلنے کو تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ظلم کا نظام ہمیشہ نہیں رہتا۔ہم لوٹ مار کرنے والوں کا احتساب کریں گے۔جعلی مینڈیٹ کے ذریعے سندھ کو غلام بنایا گیا ہے۔نئے صوبوں کی سازشیں ہو رہی ہیں۔مگر ہم ڈاکوؤں اور لٹیروں کے لیے اس دھرتی کو گرم تانبا بنا دیں گے۔
سندھ یونائٹیڈ پارٹی (ایس یو پی) کے رہنما جگدیش آہوجا نے کہا کہ آج پورا سندھ پیپلز پارٹی کی بیڈ گورننس کے خلاف اور سندھ کی سیاسی، سماجی اور معاشی تعمیر نو کے لیے کراچی میں جمع ہے، اور آج پھوہارا چوک جی ایم سید چوک لگ رہا ہے۔آہوجا نے مزید کہا کہ سندھ کے عوام نے پیپلز پارٹی کی بے ایمانی کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے۔سندھی قوم اب انقلاب لانے کے لیے تیار ہے۔سندھ ظالم حکمرانوں سے نجات چاہتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سندھ سندھیوں کا تاریخی وطن ہے۔اور سندھ ہے تو پاکستان ہے۔
ایس یو پی رہنما امیر آزاد پہنور نے کہا کہ حکمرانوں نے سندھ کو تباہ کر دیا ہے۔سندھ کو جان بوجھ کر ڈبویا گیا۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ سندھ میں سیاسی متبادل تنظیم نہیں ہے۔وہ دیکھ لیں کہ ہم تنظیم ہیں۔سندھ کے عوام کو زرداری مافیا سے نجات دلائیں گے۔سائیں جی ایم سید کےپیروکار سندھ کے ایک ایک انچ کی حفاظت کریں گے۔اس موقع پر امیر علی تھیبو نے کہا کہ سکھر سے سندھ مارچ 33 دن پیدل سفر کرنے کے بعد کراچی پہنچا۔سندھ کے عوام نے قدم قدم پرمارچ کا شاندار استقبال کیا۔انہوں نے کہا کہ سندھ میں 15 سال سے پی پی کی ظالم حکومت ہے اسے جاری نہیں رہنے دیا جائے گا۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ نوید نے کہا کہ پی پی نے سندھ کو تباہ کر دیا ہے اب کرپٹ حکمرانوں کو نکال پھینکنے کا وقت آگیا ہے۔
خاتون رہنما شیبا مغل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ وطن کے تحفظ کی ہر جدوجہد میں خواتین بھی اپنے بھائیوں کے شانہ بہ شانہ ہیں۔ہم دھرتے کے بیٹےاور بیٹیاں سب مل کر سندھ کو ظالم حکمرانوں سے نجات دلائیں گے۔
سندھ یونائیٹڈ پارٹی کی ذیلی طلبہ ونگ سیاف رہنما زین جتوئی نے کہا کہ سندھ کے عوام نسل در نسل حکمران جماعت سے نجات چاہتے ہیں۔سندھی عوام نسلوں سے غلامی اور تکلیف میں ہیں۔انہوں نے کہا کہ سندھ وسائل سے مالا مال ہے، لیکن پی پی اور زرداری مافیا سندھ کے لیے لعنت بن چکے ہیں، اب قوم کو اس بیماری کا خاتمہ کرنا ہے، کرپٹ مافیا کو باہر نکالنا ہوگا، نوجوانوں کو آگے آنا ہوگا، آئندہ انتخابات میں سندھ دوست پارٹیوں کو ووٹ دینا چاہیے۔
اعجاز سامٹیو نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لوٹ مار اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو مسنگ پرسن بنادیا جاتا ہے۔پیپلز پارٹی کو غداری کے صلے میں حکومت دی گئی ہے۔سندھ کے وسائل پر وفاق کا قبضہ ہے، ہم سندھ کو کرپٹ حکمرانوں سے نجات دلانے کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
اس موقع پر سندھ ساگر پارٹی کے صدر عبدالمومن میمن، جئے سندھ قومی محاذ کے رہنما ڈاکٹر نیاز کالانی، کراچی انڈیجینس رائٹس الائنس کے رہنما سید خداڈنو شاہ، سندھی ادبی سنگت کے مرکزی سیکرٹری جنرل تاج جویو، یاسمین تھیبو، منیر حیدر شاہ، جونیئر جی ایم سید اور دیگر بھی موجود تھے۔ اس موقع پر جی ایم سید فاؤنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر سید ضیاء شاہ، ایس یو پی رہنما منیر نائچ، میر منگریو، مختیار میمن، راحت سعید، وائس فار مسنگ پرسن سندھ کی رہنما سوہنی جویو، ایس یو پی رہنما نیاز حسین پہنور اور دیگر رہنما شریک تھے۔
اس موقع پر میڈیا گیلری پر پیر پگاڑہ صبغت اللہ شاہ راشدی، صدرالدین شاہ راشدی اور سردار رحیم کی تصاویر لگائی گئیں تھیں۔تقاریر میں جی ایم سید کی فکر اور سورہ بادشاہ کی قربانی کا بار بار ذکر کیاجاتا رہا۔
آخر میں سندھ مارچ کی متفقہ قراردادیں پیش کی گئیں۔جن میں مطالبہ کیاگیا کہ:
1. نااہل، کرپٹ اور سندھ دشمن جماعت پیپلز پارٹی کو 2008 سے سندھ میں مالی اور انتظامی کرپشن اور صوبے کو بے اختیار کرکے سندھ کو جغرافیائی طور پر تقسیم کرنے کی کوشش کے جرم میں سندھ حکومت کو برطرف کیا جائے اور اس کا سخت ترین احتساب کیا جائے۔
2. آج کا اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ ملک میں موجودہ سیاسی اور ریاستی بحران کے خاتمے کے لیے بائیو میٹرک اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے عدلیہ کی نگرانی میں جلد از جلد عام انتخابات کرائے جائیں۔
3. سندھ میں پیپلز پارٹی کی جانب سے کی جانے والی مالی اور انتظامی کرپشن کی تحقیقات کے لیے معزز ریٹائرڈ ججز پر مشتمل احتساب کمیشن بناکراس میں ملوث وزراء، مشیروں، بیوروکریٹس اور دیگر ان کو سخت ترین سزائیں دی جائیں۔
4. آج کا اجلاس موجودہ ڈیجیٹل مردم شماری کو مسترد کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ 2017 کی آبادی کی مردم شماری کو قبول کیا جائے اور 10 سال بعد یعنی 2027 میں آئین کے مطابق نئی مردم شماری کرائی جائے۔
5. آج کا یہ جلسہ عام کا فیصلہ یہ ہے کہ سندھ میں 2022 کے سیلاب کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے.اس سیلاب کی وجوہات اور اس سے سندھ کی معاشی اور سماجی تباہی کی تحقیقات کے لیے ماہرین پر مشتمل ایک شفاف کمیشن تشکیل دے کراس تباہی کے ذمہ داروں کو سخت سزا دی جائے۔
6. آج کا یہ جلسہ عام مطالبہ کرتا ہے کہ سندھ میں سیلاب سے متاثر ہونے والے لوگوں کو گھروں کی تعمیر نو اور زرعی زمین کی بحالی کے لیے بین الاقوامی شہرت کے حامل غیر سرکاری اداروں کے ذریعے مدد کی جائے۔
7. آج کا یہ جلسہ عام سمجھتا ہے کہ سندھ کے مالی وسائل، جزائر، ساحلی پٹی اور زمین پر سندھ اور سندھیوں کا حق ہے، اس لیے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اس کے خلاف جو بھی فیصلے کیے ہیں، وہ مسترد کیے جاتے ہیں۔
8. آج کی ریلی مطالبہ کرتی ہے کہ مہنگائی کے خاتمے کے لیے وی آئی پی کلچر اور سرکاری اخراجات کو ختم کیا جائے اور امیر طبقے کو فائدہ پہنچانے والی و معاشی پالیسیوں میں تبدیلی لاکر ان میں بالواسطہ ٹیکس کو کم کرکے اور ڈائریکٹ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جائے تاکہ غریب عوام پر پڑنے والے معاشی بوجھ کو کم کیا جاسکے۔