اسلام آباد (ویب ڈیسک): اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت (اے ٹی سی) نے 8 جون تک عمران خان کی 8 مقدمات میں عبوری ضمانت منظور کرلی۔چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے پارٹی چھوڑنے والوں سے متعلق سوال پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافی نے سوال کیا کہ آپ کی جماعت میں سے مسرت چیمہ اور جمشید چیمہ پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں، اس پر عمران خان نے کہا کہ یہ پارٹی چھوڑکر نہیں جا رہے، ان سے زبردستی پارٹی چھڑوائی جا رہی ہے۔ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ مجھے اپنی پارٹی کی خواتین کی گرفتاری کا سب سے زیادہ دکھ ہے۔
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت سے 8 مقدمات میں ضمانت میں توسیع حاصل کرنے کے بعد القادر ٹرسٹ کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب کی تفتیش میں شامل ہوگئے۔
قبل ازیں عمران اپنی اہلیہ بشریٰ بی بی کے ہمراہ لاہور سے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پہنچے، عدالت نے القادر ٹرسٹ کیس میں بشریٰ بی بی کی 5 لاکھ مچلکوں کے عوض 31 مئی تک بشریٰ بی بی کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔
بعدازں عمران خان 8 مقدمات میں ضمانت کے لیے جوڈیشل کمپلیکس میں انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانتوں میں 8 جون تک توسیع کردی، جس کے بعد عمران خان نیب کے راولپنڈی آفس روانہ ہوگئے۔
عمران خان جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں انسداد دہشتگردی عدالت میں پیشی کے بعد نیب کے راولپنڈی آفس پہنچے ہیں۔
نیب کی کمبائنڈ انوسٹی گیشن ٹیم نے عمران خان کو شامل تفتیش کرتے ہوئے انہیں سوالنامہ دے دیا۔
نیب کے سوالنامے میں پوچھا گیا کہ دسمبر 2019 میں برطانیہ سے غیرقانونی رقم کی واپسی کی منظوری کے لیے سمری کیوں تیار کروائی ؟ دسمبر 2019 میں برطانیہ سے غیرقانونی رقم کی واپسی کو سرنڈر کرنے کی منظوری کیوں دی ؟ ملزمان سے بدلے میں القادر یونیورسٹی کی زمین اور دیگر مالی فائدے کیوں لیے ؟
سوالنامے میں مزید پوچھا گیا کہ اعلیٰ ترین عوامی عہدے پر بیٹھ کر اختیارات کا ناجائز استعمال کیوں کیا؟ اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے ملزمان سے مالی فائدے کیوں حاصل کیے ؟ برطانیہ سے غیر قانونی رقم ملزمان کو واپس کرکے مجرمانہ عمل کیوں کیا؟ برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی سے خط و کتابت کو خفیہ کیوں رکھا گیا؟ ایسٹ ریکوری یونٹ کی سمری کو خفیہ کیوں رکھا گیا؟
قبل ازیں اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت نے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی 8 مقدمات میں عبوری ضمانتوں میں 8 جون تک توسیع کردی جبکہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے القادر ٹرسٹ کیس میں اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی 31 مئی تک درخواست ضمانت منظور کرلی۔
عمران خان القادر ٹرسٹ کیس میں نیب راولپنڈی اور 8 مقدمات میں ضمانت کے لیے انسدادِ دہشت گردی اسلام آباد کی عدالت میں پیشی کے لیے اہلیہ بشریٰ بی بی کے ہمراہ لاہور سے جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد پہنچے۔
علاوہ ازیں نیب نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو القادر ٹرسٹ کیس کی تحقیقات کے حوالے سے آج بیان ریکارڈ کرانے کے لیے سمن جاری کر رکھا ہے۔
اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں سابق عمران خان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج 8 مقدمات میں درخواستِ ضمانت پر سماعت ہوئی۔
درخواست ضمانت پر انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس سماعت کی جہاں عمران خان اپنے وکیل سلمان صفد کے ہمراہ پیش ہوئے۔
سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مجموعی طور پر 8 مقدمات ہیں، ہم تفتیشی افسر کو تمام بیانات دے چکے ہیں، جے آئی ٹی ٹیم عمران خان کو شامل تفتیش کر چکی ہے، یہاں کوئی کا مسئلہ نہیں ہے، تفتیشی افسران کے لیے دستخط شدہ بیانات آگئے ہیں، اگر ان کے مزید بھی کوئی سوال ہیں تو ہم ان سے تعاون کریں گے، گزارش ہے کہ تمام مقدمات میں ایک ہی دن دلائل دینے کی اجازت دی جائے۔
عدالت کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ آپ ایک کیس میں تو دے ہی سکتے ہیں، عمران خان شامل تفتیش ہوچکے ہیں، اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ ہم نے نیب میں بھی پیش ہونا ہے، عمران خان کی اہلیہ بھی ساتھ ہیں، عدالت اجازت دے تو آئندہ سماعت پر دلائل دوں گا، لاہور انسداد دہشتگردی عدالت کے جج نے کمرہ عدالت میں ہی شامل تفتیش کرایا، ہماری استدعا یہی ہے کہ کمرہ عدالت میں ہی شامل تفتیش کیا جائے۔
دوران سماعت پراسیکیوٹر نے کہا کہ عمران خان کو بارہا بلایا گیا، وہ تفتیشی افسر کے سامنے پیش نہیں ہوئے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں حکم دیا تب بھی پیش نہ ہوئے، جے آئی ٹی بنی، یہ جے آئی ٹی کے سامنے بھی پیش نہیں ہوئے۔
پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ 4 مقدمات میں جے آئی ٹی بنی ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کا عدالتی حکم نامہ پیش کیا 27 مارچ کو ایک ہی حکم نامہ ہوا، نوٹسز ہوتے رہے چھ اپریل،اٹھارہ اپریل کو پیش ہوں یہ پیش نہیں ہوئے، 3 مئی کو کہا اگلی تاریخ میں لازمی پیش ہوں لیکن پھر بھی شامل تفتیش نہیں ہوئے۔
جج نے استفسار کیا کہ آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ آپ کو ڈائریکشن ہوئی ہے آپ نے عمران خان کے پاس جانا تھا، کیا آپ نے سوالنامہ ان کو دیا ہے؟ اس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ 4 مقدمات میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنی لیکن یہ ان میں پیش نہیں ہوئے، پھر کہا گیا ٹانگ خراب ہے یہ پیش نہیں ہو سکتے، عدالت سے استدعا ہے کہ ڈائریکشن دیں ملزم مقدمات میں شامل تفتیش ہو۔
سلمان صفدر نے کہا کہ میں بیانات لیے پھر رہا ہو لیکن ان کو کوئی لینا نہیں چاہتا، جج نے استفسار کیا کہ پنجاب کے جو مقدمات تھے ان میں جے آئی ٹی نے کیسے کام کیا، سلمان صفدر نے جواب دیا کہ جے آئی ٹی بنائی گئی اور پوری جے آئی ٹی زمان پارک میں آئی اور شامل تفتیش کیا گیا۔
جج نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کس طریقے سے عمران خان بیان ریکارڈ کرائیں؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ عمران خان جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو جائیں، جہاں بلایا جائے وہ آئیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ جب عمران خان پولیس لائن میں آپ کی کسٹڈی میں تھے تب کیوں بیان نہیں لیا گیا؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ وہ اس وقت نیب کی کسٹڈی میں تھے۔
جج نے ریمارکس دیے کہ کسٹڈی از کسٹڈی، یہ کیا بات ہوئی؟ آپ میرے پاس نہیں آسکتے تھے کہ اجازت دیں ہم نے بیان لینے جانا ہے؟ آپ ایسا نہ کریں، میں پھر کیس لا کی طرف آجاؤں گا، پشاور میں عدالت نے حکم نامہ دیا ہوا ہے کہ کسٹڈی کسٹڈی ہوتی ہے۔
دوران سماعت عمران خان روسٹرم پر آگئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ایک قاتلانہ حملہ ہوا، دوسرا جوڈیشل کمپلیکس میں ہوا، جب میں گھر سے باہر نکلتا ہوں تو اپنی جان رسک کرتا ہوں، وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں میری جان کو خطرہ ہے، میں کہہ رہا ہوں خطرہ ہے، لاہور میں جے آئی ٹی میرے گھر آئی، وہیں تفتیش کی، ہم نے تعاون کیا، صرف چاہتا ہوں کہ جیسے لاہور ہائی کورٹ نے کیا اسی طرح شامل تفتیش کرلیں۔
عدالت نے اسستفسار کیا کہ جے آئی ٹی یہاں موجود ہے؟ پراسیکیوٹر نے عدالت کا آگاہ کیا کہ جے آئی ٹی یہاں موجود نہیں ہے، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ تو ان کی سنجیدگی کا حال ہے، اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو یہاں موجود ہوتے، جے آئی ٹی کا کوئی بندہ یہاں ہونا چاہیے تھا۔
عدالت نے آدھے گھنٹے میں جے آئی ٹی کو طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ جے آئی ٹی آئے اور بتائے کہ وہ کیسے ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں۔
بعدازاں انسدادِ دہشت گردی عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانتوں میں 8 جون تک توسیع کردی، جس کے بعد عمران خان نیب کے راولپنڈی آفس روانہ ہوگئے۔