اسلام آباد (ہیلتھ ڈیسک): قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) نے کہا ہے کہ پاکستان میں ’نیپاہ‘ وائرس (این آئی وی) کے پھیلاؤ کا خطرہ کم ہے، تاہم اس نے حکام پر ملک بھر کے داخلی راستوں پر چوکنا رہنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق اس وائرس کی سب سے پہلے 1999 میں تشخیص ہوئی تھی۔ یہ وائرس چمگادڑوں اور خنزیروں، آلودہ کھانے سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے یا پھر یہ براہ راست انسانوں سے انسانوں میں بھی منتقل ہوتا ہے۔اس وائرس کے متاثرین (جانوروں یا انسانوں) کے لیے کوئی بھی علاج یا ویکسین موجود نہیں ہے لیکن انسانوں کے لیے بنیادی دیکھ بھال ہی اس کا علاج ہے۔
حالیہ مہینوں میں بھارتی ریاست کیرالہ میں نیپاہ وائرس کے کیسز سامنے آئے جس کی وجہ سے حکومت اسکول بند کرنے اور سیکڑوں رہائشیوں کے ٹیسٹ کرنے پر مجبور ہوگئی۔
قومی ادارہ صحت کی طرف سے 7 اکتوبر کو جاری کردہ ایڈوائزری کے مطابق ستمبر میں بھارتی ریاست میں 6 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے دو افراد کی ہلاکت ہوگئی۔
ادارے نے کہا کہ اس سے قبل بنگلہ دیش، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور اور بھارت سمیت دیگر ممالک میں بھی انسانوں میں نیپاہ وائرس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
اگرچہ نیپاہ وائرس ایشیا میں صرف چند ہی معلوم وباؤں کا باعث بنا، لیکن یہ جانوروں سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے اور انسانوں میں شدید بیماری اور موت کا سبب بنتا ہے جس سے یہ صحت عامہ کا مسئلہ بن گیا ہے۔
پاکستان کے بارے میں این آئی ایچ کی ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ ملک میں مجموعی طور پر وائرس پھیلنے کا خطرہ کم ہے اور ابھی تک کسی انسان یا جانور میں اس وائرس کی تشخیص کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
ادارے نے کہا کہ تاہم بہت سے عوامل ہیں جن سے پاکستان میں نیپاہ وائرس آنے کا خدشہ ہے جن میں چمگادڑوں کی مختلف اقسام کی موجودگی، بین الاقوامی سفر اور بھارت کے ساتھ طویل سرحد شامل ہے۔
قومی ادارہ صحت نے پاکستان میں نیپاہ وائرس کو روکنے کے لیے متعدد احتیاطی تدابیر پر روشنی ڈالی۔
قومی ادارہ صحت نے مزید کہا کہ خطرے کے عوامل کے بارے میں بیداری پیدا کرنے جیسے اقدامات نیپاہ وائرس کے پھیلنے اور منتقلی کے خطرے کو کم کرنے میں اہم ہیں، اس کے علاوہ سیکنڈری ٹرانسمیشن کو روکنے کے لیے موجودہ آپشنز میں فعال کیس کی تلاش، کانٹیکٹ ٹریسنگ، کیسز اور ان کے رابطوں کو قرنطینہ کرنا شامل ہیں۔
قومی ادارہ صحت نے احتیاطی تدابیر میں کہا کہ کمیونٹی بیداری میں مناسب طریقے سے کھانے کی اشیا بالخصوص پھلوں کو دھونے اور جزوی طور پر کھائے گئے پھلوں کو کھانے سے گریز شامل ہے جو کہ پھلوں کے چمگادڑوں سے آلودہ ہو سکتے ہیں۔
ایڈوائزری میں مزید کہا گیا ہے کہ صحت کے ماہرین کو اس وائرس کی علامات سے آگاہ رہنا چاہیے، مریضوں کو دیکھتے وقت ان کی سفری تاریخ معلوم کرنی چاہیے اور نیپاہ وائرس کے مشتبہ کیسز کے نمونے قومی ادارہ صحت کو جمع کرائیں۔
قومی ادارہ صحت نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی، علاقائی محکمہ صحت، پوائنٹس آف انٹریز، ہسپتالوں، معالجین اور لیبارٹری کے افراد اور لائیو اسٹاک اور ڈیری محکموں کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے اور عالمی ادارہ صحت کی تشریح کے مطابق نیپاہ کے کسی بھی مشتبہ کیس کے بارے میں صحت کے حکام کو مطلع کیا جائے۔
یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں پھیلتا ہے اور یہ خطرناک وائرس پہلی بار 1998 میں ملائیشیا کے جزائر نما علاقوں میں چمگادڑوں اور بعد ازاں خنزیروں میں تشخیص ہوا تھا۔مذکورہ وائرس ملائیشیا کے علاقے ’نیپاہ‘ میں پہلی بار سامنے آیا، جس وجہ سے اس کا نام بھی یہی رکھا گیا اور جلد ہی مذکورہ وائرس وہاں کے دیگر علاقوں کے جانوروں میں پھیل گیا۔
بعد ازاں ’نیپاہ‘ وائرس آسٹریلیا میں بھی چمگادڑوں اور خنزیروں سمیت دیگر جانوروں میں پایا گیا، جہاں بعض انسان بھی اس میں مبتلا ہوئے۔سال 2004 میں ’نیپاہ‘ وائرس کی تشخیص بنگلہ دیش میں بھی ہوئی اور وہاں بھی ابتدائی طور پر اس سے جانور متاثر ہوئے لیکن بعد ازاں یہ انسانوں میں بھی پایا گیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں آسانی سے منتقل ہونے والا خطرناک وائرس ہے جب کہ یہ ایک سے دوسرے انسان میں بھی منتقل ہوسکتا ہے۔