اسلام آباد (ویب ڈیسک): سپریم کورٹ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف درخواست کی سماعت دوبارہ شروع ہونے کے درمیان بدھ کو بلوچستان کے کئی شہروں میں گزشتہ 70 سالوں سے ہونے والے ’ریاستی جبر‘ اور ’مظالم‘ کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔اسلام آباد میں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف بلوچ لانگ مارچ کے منتظمین میں سے ایک منتظمین بلوچستان یکجہتی کمیٹی کی جانب سے شیئر کی گئی تصاویر میں گڈانی، نوہسکی، خضدار، تربت اور دیگر علاقوں میں کاروبار بند ہونے کی وجہ سے سنسان سڑکیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
ایک روز قبل اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر شدید سردی میں احتجاج کرنے والے بلوچ مظاہرین نے حکومت کو دیے گئے7 دن کے الٹی میٹم کی میعاد ختم ہونے کے بعد ملک بھر میں شٹر ڈاؤن مظاہرے کی کال دی تھی ۔
ان کے مطالبات میں پولیس کی کارروائی کے دوران حراست میں لیے گئے تمام مظاہرین کی رہائی، بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلی تحقیقات، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کا خاتمہ، جبری گمشدگیوں کے تمام متاثرین کی رہائی، محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پر پابندی اور ریاست کے زیر اہتمام ڈیتھ اسکواڈز کا خاتمہ شامل ہے۔
کل رات بلوچستان یکجہتی کمیٹی نے کہا تھا کہ ریاست مظاہرین کے ساتھ بات چیت کرنے میں ناکام رہی ہے اور اعلان کیا تھا کہ آج سہ پہر 3 بجے ایک پریس کانفرنس منعقد کی جائے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد کے پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد ان کے احتجاجی کیمپ کے سامنے پہنچ چکی ہے، ہمیں تشویش ہے کہ وہ ہم پر کریک ڈاؤن کریں گے اور پر امن مظاہرین کو گرفتار کریں گے۔
مظاہرین نے کہا کہ پولیس انہیں کھانے، خیمے، ساؤنڈ سسٹم اور دیگر سہولیات کی اجازت نہیں دے رہی ہے، اس سرد موسم میں بوڑھی مائیں اور بہنیں سخت مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں، ان کی صحت کو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔