اسلام آباد (ویب ڈیسک): چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ایک ملک میں دو نظام نہیں چل سکتے، چیف جسٹس اور آئینی بینچ کے سربراہ کو غیر متنازع ہونا چاہیے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کے ساتھ ناراضی کا سوال نہیں، سیاست عزت کے لیے ہوتی ہے سیاست میں ناراضی نہیں، سپریم کورٹ میں دیہی سندھ سے ججز ہوتے تو برابری کی بات کرتا، وفاقی حکومت نے آئین سازی کے وقت برابری کی باتیں کی تھیں، دنیا میں حکومت شراکت داروں کے ساتھ معاہدوں پر عمل کرتی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ معاہدوں پر عمل درآمد کا کیا ہوا؟انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن سے احتجاجاً الگ ہوا جوڈیشل کمیشن میں ہوتا تو آئینی بینچ میں فرق پر بات کرتا، آئین سازی کے وقت حکومت اپنی باتوں سے پیچھے ہٹ گئی، وفاقی آئینی میں الگ اور سندھ کے لیے الگ طریقہ اختیار کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کررہی ہے، وفاق میں نہ عزت دی جاتی ہے اور نہ سیاست کی جاتی ہے، طے ہوا تھا کہ پی ایس ڈی پی مشاورت کے ساتھ بنائی جائے گی، میں 26 ویں آئینی ترمیم میں مصروف تھا، حکومت نے پیٹھ پیچھے کینالز کی منظوری دے دی، قانون سازی پر پوری طرح مشاورت ہونی چاہیے یہ عجیب عمل ہے کہ پہلے ایوان میں بل پھر اس کے بعد مجھے کاپی دی جائے۔
بلاول نے بتایا کہ صدر زرداری کی طبیعت بہتر ہے ایک ہفتے قبل ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی جس میں چار فریکچر آئے جس کا علاج چل رہا ہے انہیں کچھ ہفتوں کے لیے آرام درکار ہوگا۔
صحافی نے سوال کیا کہ چینی سفیر نے بیان دیا ہے کہ ان کے شہریوں کے قتل ناقابل قبول ہیں تو آپ کیا کہتے ہیں؟ اس پر بلاول نے کہا کہ ہم ان کے بیان کے مکمل حامی ہیں ایک قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، اس کی مذمت کرتے ہیں چینی ہمارے مہمان ہیں جو ہماری معیشت کو فائدہ دے رہے ہیں ان کے قتل پر ہم بھی ایسی ہی سخت مذمت کرتے ہیں جیسا کہ سفیر نے کہا ہے اور میں بھی اسے ناقابل قبول کہوں گا۔
چیئرمین پی پی نے کہا کہ غیرملکیوں کے قتل کے بعد ہمارے رہنما سفارت خانے جاکر تعزیتیں کرتے ہیں مگر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں باتیں کم اور کام زیادہ کرنا چاہیے، ہمیں عالمی سطح پر دیگر ممالک سے ملک اس بین الاقوامی نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے، ہمیں ڈومیسٹک نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت ہے بلوچستان سے سابق قبائلی علاقوں تک دہشت گردی کی جو آگ پھیلی ہے اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کے تدارک کے لیے کام کرے۔
ٹرمپ کی فتح کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس سے یہاں کی سیاست پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، جب میں وزیر خارجہ تھا اس وقت بھی پاک امریکا تعلقات کوئی خاص نہیں تھے مگر اب اس سے زیادہ بدتر تعلقات ہیں، ہمیں پاک امریکا تعلقات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
انٹرنیٹ پر اور وی پی این پر مزید پابندیوں کے سوال پر انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ فیصلے کرتے ہیں وہ اسے استعمال ہی نہیں کرتے اور انہیں اس کی معلومات ہی نہیں نہ انہیں کوئی فرق پڑتا ہے ہم سے اس بارے میں کوئی مشاورت نہیں کی گئی اس سے ٹیکنالوجی کا نقصان ہوگا، یہ کہتے ہیں کہ فورجی ہے جھوٹ کہتے ہیں اس وقت تھری جی ہے اور وہ بھی اتنا سلو ہوگیا ہے کہ میرے بچپن کا نوے کی دہائی کا انٹرنیٹ واپس آگیا ہے جو ٹیں ٹیں کرکے چلتا تھا مزید ستم یہ کہ وی پی این بھی بند کردیا۔