بیروت(ویب ڈیسک): اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان فائر بندی کا معاہدہ آج صبح سے نافذہوگیا ہے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں جنگ بندی معاہدہ ہونے پر جشن منایا گیا اور بدھ کی صبح سے باضابطہ طور پر جنگ بندی کے آغاز کے بعد فوری طور پر خلاف ورزی کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے البتہ اسرائیل نے خبردار کیا ہے کہ اگر حزب اللہ کی جانب سے حملہ کیا گیا تو جنگ بندی معاہدہ ختم ہو جائے گا.امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق جنگ بندی کے تحت ابتدائی دو ماہ میں حزب اللہ جنوبی لبنان سے اپنی مسلح موجودگی ختم کرے گی جب کہ اسرائیلی فوجی لبنان سے واپس اپنی سرحدی حدود میں چلے جائیں گے لبنانی فوج کے ہزاروں اہلکاروں اور اقوامِ متحدہ کے امن دستوں کو جنوب کی جانب تعینات کیا جائے گا جب کہ امریکہ کی سربراہی میں ایک عالمی پینل صورتِ حال کا جائزہ لے گا.اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان میں سماجی رابطے کی سائٹ” ایکس“ پر عربی زبان میں جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ جنوبی لبنان سے بے دخل ہونے والے شہری فوری طور پر اپنے گھروں کو واپس نہ آئیں کیوں کہ فوج بدستور موجود رہے گی دوسری جانب لبنان کے مقامی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بدھ کی علی الصباح چار بجے سے جنگ بندی کا آغاز ہوا ہے لیکن ایک روز قبل اسرائیل نے بیروت پر متعدد فضائی حملے کیے جن میں کم از کم 42 افراد ہلاک ہوئے ہیں.
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کے معاہدہ میں غزہ کا ذکر نہیں ہے جہاں حماس اور اسرائیل کے درمیان اب بھی لڑائی جاری ہے واضح رہے کہ اسرائیل کی سیکیورٹی کابینہ نے امریکہ اور فرانس کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی معاہدے کی منظوری دی جسے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے پیش کیا تھا نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے واشنگٹن میں بات کرتے ہوئے جنگ بندی معاہدے کو ایک اچھی خبرکہا ہے جب کہ ان کی انتظامیہ غزہ میں بھی جنگ بندی کی کوششوں کا آغاز کرے گی.
صدر بائیڈن کی حکومت نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے لیے طویل وقت صرف کیا تھا لیکن مذاکراتی عمل بار بار تعطل کا شکار ہو جاتا تھا امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی عندیہ دے چکے ہیں ہیں وہ مشرق وسطیٰ میں امن واپس لے کر آئیں گے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے منگل کو کابینہ میں جنگ بندی معاہدہ پیش کرنے کے بعد اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں کہا کہ حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی غزہ میں حماس کو تنہا کر دے گی اور ہمیں اپنے مرکزی دشمن ایران پر اپنی تمام توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملے گا.انہوں نے کہا کہ اگر حزب اللہ نے معاہدہ توڑا اور دوباہ مسلح ہونے کی کوشش کی تو ہم اسے نشانہ بنائیں گے اور ہر خلاف ورزی پر مو ثر جواب دیا جائے گا امریکی وساطت سے طے پانے والے معاہدے کے حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن نے بتایا کہ اس جنگ بندی کی مدت 60 روز ہے جس کا مقصد ”مستقل جنگ بندی“کو یقینی بنانا ہے یہ جنگ بندی اسرائیل اور حزب اللہ کے بیچ ایک سال تک سرحد پار فوجی مقابلے اور دو ماہ کی کھلی جنگ کے بعد سامنے آئی ہے.
عرب نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ بیروت کی فضاﺅں میں اسرائیل کے جاسوس طیاروں کی پروازوں کا سلسلہ رک گیا ہے اسی طرح جنوبی لبنان پر اسرائیلی حملے بھی روک دیے گئے ہیں اس سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس بات پر زور دیا تھا کہ یہ معاہدہ ان کی فوج کو لبنان میں حرکت میں آنے کی آزادی دیتا ہے اس کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں حماس تنظیم کو ”تنہا“کیا جائے گا اور یہ تل ابیب کو ایرانی خطرے پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع دے گا.
نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق سیکورٹی کابینہ نے اس معاہدے کی منظوری دی ہے اس حوالے سے دس وزراءنے اس کے حق میں جب کہ ایک نے اس کے خلاف ووٹ دیا فائر بندی کے معاہدے کا متن سرکاری طور پر جاری نہیں کیا گیا تاہم صدربائیڈن نے وائٹ ہاﺅس میں اپنے خطاب میں واضح کیا کہ آئندہ ساٹھ روز تک لبنانی فوج اور حکومتی سیکورٹی فورسز تعینات کی جائیں گی اور یہ دونوں ایک بار پھر اپنی اراضی کا کنٹرول حاصل کریں گی.انہوں نے بتایا کہ اس معاہدے کے تحت جنوبی لبنان میں حزب اللہ کو دہشت گردی کا بنیادی ڈھانچہ دوبارہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اس کے مقابل اسرائیل آئندہ ساٹھ روز میں اپنی بقیہ فوج کو بتدریج واپس بلا لے گا امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اگر حزب اللہ یا کسی بھی فرد نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور اسرائیل کے لیے براہ راست خطرہ پیدا کیا تو اسرائیل بین الاقوامی قوانین کے مطابق اپنے دفاع کا پورا حق محفوظ رکھتا ہے کسی بھی دوسرے ملک کی طرح جب اسے ایک دہشت گرد تنظیم کا سامنا ہو جو اسے تباہ کرنا چاہتی ہو.
امریکی صدر نے اس معاہدے تک پہنچنے کو خوشی کی خبر قرار دیتے ہوئے اس سلسلے میں کوششوں میں شرکت پر اپنے فرانسیسی ہم منصب عمانوئل میکرون کا شکریہ بھی ادا کیا اس موقع پرمیکرون نے امید ظاہر کی کہ اس معاہدے کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں بھی فائر بندی کی راہ ہموار ہو گی جس کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا ہے. حزب للہ نے غزہ کی پٹی کے لیے”معاون محاذ“کے طور پر تقریبا 14 ماہ سے اسرائیل کے خلاف لڑائی کا محاذ کھولا ہوا ہے اس کا موقف ہے کہ وہ غزہ کی جنگ رکنے سے پہلے یہ معرکہ نہیں روکے گی البتہ 27 ستمبر کو بیروت کے جنوبی مضافات الضاحیہ میں اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے بعد تنظیم نے لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کو اپنی طرف سے مذاکرات کا اختیار سونپ دیا.
ایک سینئر امریکی عہدے دار کے مطابق فائر بندی کے معاہدے میں پانچ رکنی کمیٹی کی تشکیل شامل ہے کمیٹی کی سربراہی امریکا کے پاس ہو گی جب کہ دیگر چار ارکان لبنان میں اقوام متحدہ کی عارضی امن فوج (یونیفل)، فرانس، اسرائیل اور لبنان ہوں گے اس کمیٹی کی ذمے داری جنگ بندی پر اچھی طرح عمل درآمد کی نگرانی ہو گی. اس سے قبل لبنان کے کئی علاقوں بالخصوص دار الحکومت بیروت پر اسرائیل کے بھرپور فضائی حملے دیکھنے میں آئے اس دوران میں ایسے محلوں پر بھی بم باری کی گئی جن کو اس سے قبل نشانہ نہیں بنایا گیا تھا فائر بندی کے معاہدے کے اعلان کے بعد بھی حملوں کا سلسلہ جاری رہا ادھر حزب اللہ نے بتایا کہ اس نے شمالی اسرائیل میں بعض علاقوں پر بم باری کی ہے.
دوسری جانب لبنان کے نگراں وزیر اعظم نجیب میقاتی کا کہنا ہے کہ فائر بندی معاہدہ لبنان میں سکون اور استحکام کی جانب ایک بنیادی قدم ہے ایک بیان میں انہوں نے باور کرایا کہ لبنانی حکومت سلامتی کونسل کی قرار داد 1701 پر عمل، جنوب میں فوج کی موجودگی مضبوط بنانے اور لبنان میں اقوام متحدہ کی عارضی امن فوج کے ساتھ تعاون کی پابند ہے.