تنزانیہ (ویب ڈیسک): تنزانیہ کی مشہور پراسرار جھیل ایک عرصے سے معمہ بنی رہی ہے کیونکہ اس جھیل میں جانے والے اکثر جانور فوری طور پر مرجاتے ہیں اور وہاں اس طرح رک جاتے ہیں کہ گویا مجمند ہوگئے ہیں۔اس کا نام نیٹرون جھیل ہے اور یہاں فلیمنگو پرندے ملاپ کرتے ہیں۔ لیکن یہ پرندے بھی کنارے پر ہی رہتے ہیں کیونکہ نمکین جھیل گہرائی میں انہیں ہمیشہ کے لیے ساکت بنا سکتی ہے۔ جیسے ہی کوئی جانور یا پرندہ اس جھیل میں گرجائے وہ فوری طور پر مر جاتا ہے اور بہت تیزی سے اس کا جسم نمک زدہ ہوکر ایسا لگتا ہے کہ گویا پتھر کا ہوچکا ہے۔
جھیل کا اوسط درجہ حرارت صرف 26 درجے سینٹی گریڈ ہے جس میں خاص قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں۔ انہی جھیل کی وجہ سے جھیل گہری سرخ رنگت میں دکھائی دیتی ہے۔ لیکن اس میں الکلائنی کیفیت اور بھرپور نمک موجود ہے جو اسے مزید پراسرار بناتا ہے۔
ایک عرصے تک جھیل کو آسیبی اور پراسرار سمجھا گیا تھا لیکن یہاں کے کنارے بھی نمک کے ڈلوں پر مشتمل ہیں۔ نمک کی زیادتی اور کسی مچھلی کی عدم موجودگی سے اسے جان لیوا جھیل بھی کہا جاتا ہے۔ جھیل کی اس کیفیت کی وجہ قریبی آتش فشاں پہاڑ ہے جو اب بھی سرگرم ہے، اس سے نیٹرو کاربونائی ٹائٹس جھیل میں آتے ہیں اور الکلائن کیفیت 10 بی اپچ تک بڑھ چکی ہے۔ یہاں بیکٹیریا ہی پائے جاتے ہیں جن کی بہتات سے جھیل سرخ ہوچکی ہے۔
فلیمنگو پرندے نیٹروکاربونائی ٹائٹس کھاتے رہتے ہیں لیکن وہ کنارے تک ہی رہتے ہیں اور دور تک نہیں جاتے۔ تاہم جھیل کنارے پر بڑی تعداد میں مری ہوئی چمکادڑیں اور پرندے دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس جھیل میں 19000 سال کی تاریخ بھی پنہاں ہے۔
جھیل کنارے انسان کے 400 قدم دیکھے گئے ہیں جو ایک وقت میں جم کر پتھراگئے اور ہزاروں سال قدیم بتائے جاتے ہیں۔