اسلام آباد (ویب ڈیسک): سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں الیکشن کے التوا سے متعلق کیس کی سماعت گزشتہ روز مکمل ہوگئی اور فیصلہ محفوظ کرلیا گیا جو آج کسی بھی وقت سنایا جائےگا۔وزارت دفاع کی جانب سے سربمہر لفافےمیں رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہے، رپورٹ میں انتخابات کے لیے فوج کی عدم دستیابی کی وجوہات بیان کی گئی ہیں۔چیف جسٹس بینچ کے دو ارکان کےساتھ چیمبر میں رپورٹ کا جائزہ لیں گے جس کے بعد الیکشن سے متعلق فیصلہ تحریرکیا جائےگا اور فیصلہ سنانےکے وقت کا اعلان کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ پھر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن جلدکرانےکا فیصلہ سنائےگی یا تمام اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہوں گے، سب کےلیے قابل قبول فیصلہ آئےگا یا سیاسی خلیج مزید بڑھےگی، تمام نظریں سپریم کورٹ کی جانب ہیں۔
سپریم کورٹ کے باہر سکیورٹی کے سخت ترین حفاظتی انتظامات کیےگئے ہیں، فیصلہ آج کسی بھی وقت سنائے جانےکا امکان ہے۔
سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر پنجاب اور کےپی کے انتخابات میں تاخیر کے مقدمے کا فیصلہ 6 سماعتوں کے بعد گزشتہ روز محفوظ کیا تھا۔
کیس کی پہلی تین سماعتیں پانچ رکنی بینچ نے کیں، جسٹس امین الدین نے چوتھی اور جسٹس جمال مندوخیل نے پانچویں سماعت پر کیس سننے سے معذرت کی، جس کے بعد 31 مارچ اور 3 اپریل کو چیف جسٹس پاکستان، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
آخری سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا پیغام ہے اب بھی وقت ہے مل بیٹھ کر معاملات کا سیاسی حل نکالیں، پاکستانی قوم کی خاطرسیاسی ڈائیلاگ کریں اورکسی سیاسی نتیجے پرپہنچیں، سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہوتے تو آئینی مشینری موجود ہے، الزامات لگائے جارہے ہیں کیوں کہ ہرکوئی صرف سیاسی مفادات کو پورا کرنا چاہتا ہے، ایسا نہ ہو کہ دوسرا کوئی غیرضروری معاملہ شروع ہوجائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اپنے ججز بھی خود چننا چاہتے ہیں؟ یہ کبھی نہیں ہوا کہ اپنے مقدمات سننے کے لیے ججزخود منتخب کیے گئے ہوں، ہمیں تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہے، پارلیمنٹ اور حکومت کا بہت احترام ہے، انتخابات ایک ساتھ ہونےکا آئیڈیا زبردست ہے، اس کیس میں دو اسمبلیاں تحلیل ہوچکی ہیں، وفاقی حکومت کی جانب سے یقین دہانی چاہیے ہوگی، ملک میں کوئی سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہو رہا، سارا بوجھ وفاقی حکومت پر ہے، وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی پیش کی گئی وجوہات بھی دیکھیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ کی کافی رقم خرچ ہوچکی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کو اس حوالے سے وضاحت دینا ہوگی، تاہم عوام کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے، الیکشن میں بدمزگی ہوئی تو ملبہ عدالت پر آئےگا، سیاسی مذاکرات کا آپشن اسی لیے دیا گیا تھا، آئین واضح ہےکہ الیکشن کب ہونے ہیں، مذاکرات کے آپشن کا کوئی جواب نہیں آیا۔
عدالت نے کیس میں اٹارنی جنرل، پی ٹی آئی، الیکشن کمیشن کے وکلا سیکرٹری دفاع اور خزانہ سمیت ایڈووکیٹ جنرلز کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا، جو آج سنایا جائےگا۔