اسلام آباد (ویب ڈیسک): وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے ہمارے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جیسے 30 سال انہوں نے بھگتا ہے ہم بھی آگے جاکر وہی سیاست کریں، ملک کے نوجوان اس روایتی سیاست سے تنگ آچکے ہیں۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے ایوان میں گالم گلوچ اور بدتہذیبی کی سیاست نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ جب ہم اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی مخالفت کرتے تھے تو جمہوری دائرے میں رہنے کی کوشش کرتے تھے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اپوزیشن میں ہوتے ہوئے دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے تھے اور مسلط حکومت کو بے نقاب کرنا چاہ رہے تھے مگر ہر وقت ہمارے ذہن میں یہ ہوتا تھا کہ ہم سے ایسا کام نہ ہو جس سے سسٹم کو نقصان ہو، جمہوریت کو دھچکا پہنچے اور تیسری قوت یا غیر جمہوری قوت فائدہ لے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے پوری توجہ اس پر دی کہ عدم اعتماد کے ذریعے سلیکٹڈ وزیراعظم کو نکالنا ہے، تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا لیکن تمام سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے ہم اس میں کامیاب ہوئے اور تاریخ رقم کی اور سلیکٹڈ وزیراعظم کو ووٹ کے ذریعے گھر بھیج کر اتحادی وزیر اعظم کو منتخب کیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ہم سب نے ارادہ کیا کہ جو غلطیاں پہلے ہوئی ہیں ان کو درست کرنے کی کوشش کریں، سویلین اداروں کو مضبوط بنائیں، پارلیمان کے وقار کو بحال کیا جائے، جمہوریت کو مضبوط کیا جائے اور اب تاریخ فیصلہ کرے گی کہ ہم اس میں کامیاب ہوئے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم حکومت میں آئے تو ہمیں ایک ایسی اپوزیشن ملی جس کو نہ جمہوریت کی فکر تھی، نہ پارلیمان، نہ ملک اور نہ ہی کارکنان کی فکر تھی اور انہوں نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے پاکستان کی تاریخ میں وہ ریڈ لائن عبور کی جو کبھی نہیں ہوئیں کیونکہ جب ایک وزیراعظم (ذوالفقار بھٹو) کو تختہ دار پر چڑھایا گیا اور دو وزرائے اعظم کو جلاوطن کیا گیا تب بھی اس قسم کی سیاست نہیں کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسی اپوزیشن ملی جس نے تاریخ میں پہلی بار جناح ہاؤس اور فوجی تنصیبات پر حملہ کیا، اور جب ایسا قدم اٹھایا جاتا ہے تو پھر ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے ایسے کچھ اقدام اٹھانے پڑے تاکہ پھر سے ایسے کام نہ ہوں، لیکن افسوس کے ساتھ ہمیں جو نظر آرہا ہے ہماری اپوزیشن کوئی سبق نہیں سیکھ رہی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اپوزیشن کا سیاست کا طریقہ کار اور انداز آج بھی وہی ہے کہ یا میں کھیلوں گا یہ کسی کو نہیں کھیلنے دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ اب ہم انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن سیاسی جماعتوں کی کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اس نظام کو کیسے چلنے دیں گے، پاکستان پیپلز پارٹی کا مؤقف یہ ہے کہ نیا میثاق جمہوریت نہ ہی سہی پرانے میثاق جمہوریت کو تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو تسلیم کرنا ہوگا، ہمیں بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا واپڈا کو وفاقی وزیر برائے آبی وسائل چلائیں گے یا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس کو چلائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں 15 ماہ کا جو وقت ملا اس میں ہم تمام اداروں کو دائرہ اختیار میں کام کرانے کے حوالے سے کامیاب نہیں ہوئے، مزید کہا کہ اپوزیشن پر بھی فرض ہے کہ وہ اپنا رویہ درست کرے اور ہم پر بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم سب سیاستدان بنیں، سیاست و جمہوریت کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں نے کچھ دن قبل بھی یہ بیان دیا تھا کہ نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کو ایسے فیصلے لینے چاہئیں جس سے میرے اور مریم نواز کے لیے آگے جاکر سیاست آسان ہو نہ کہ مشکل۔
انہوں نے مزید کہا کہ جیسے ہم چل رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ہمارے بڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ جیسے 30 سال آپ نے بھگتا ہے ہم بھی آگے جاکر وہی سیاست کریں، ہمارے ملک کے نوجوان اس روایتی سیاست سے تنگ آچکے ہیں، وہ اب نہ ہم پر بھروسہ کرتے ہیں نہ کسی اور پر جبکہ ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہماری نوجوان نسل ہے۔