دمشق (ویب ڈیسک): اسرائیلی جیٹ طیاروں نے شام کے فوجی اہداف کو نشانہ بنایا جس کے جواب میں اسرائیل کے زیر کنٹرول علاقے کی جانب رات بھر راکٹ داغے گئے۔خبررساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق شام کے سرکاری میڈیا نے دارالحکومت دمشق کے آس پاس دھماکوں کی خبر دی جبکہ اسرائیل نے کہا کہ گولان کی پہاڑیوں کی جانب 6 راکٹس داغے جانے کے بعد اس کی افواج رات بھر شامی علاقے کو نشانہ بناتی رہیں۔اسرائیل نے کہا کہ آرٹلری اور ڈرون حملوں نے راکٹ لانچروں کو نشانہ بنایا اور اس کے بعد شامی فوج کے ایک کمپاؤنڈ، فوجی ریڈار سسٹم اور آرٹلری پوسٹوں پر فضائی حملے کیے گئے۔
اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی فوج ’ریاست شام کو اپنی سرزمین میں ہونے والی تمام سرگرمیوں کے لیے ذمہ دار سمجھتی ہے اور وہ اسرائیلی خودمختاری کی خلاف ورزی کرنے کی کسی بھی کوشش کی اجازت نہیں دے گی۔‘
دوسری جانب شام کی وزارت دفاع نے کہا کہ اس کے فضائی دفاع نے اسرائیلی حملوں کا جواب دیا اور کچھ اسرائیلی میزائلوں کو روک دیا، حملوں کے نتیجے میں صرف مادی نقصان ہوا اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اس سے قبل جب شامی سرزمین سے راکٹ داغے گئے تھے تو گولان کی پہاڑیوں کے قصبوں کے قریب سائرن بجے تھے تاہم کوئی تباہی یا جانی نقصان نہیں ہوا۔
اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر نے کے بعد 1981 میں 12 سو مربع کلومیٹر کے علاقے کو اپنے اندر ضم کرلیا تھا، اس اقدام کو زیادہ تر عالمی برادری نے تسلیم نہیں کیا۔
فوج نے بتایا کہ صرف تین راکٹ اسرائیل کے زیر کنٹرول علاقے میں داخل ہوئے جن میں سے دو کھلی زمین پر گرے اور تیسرے کو فضائی دفاعی نظام نے روک لیا۔
لبنان میں مقیم المیادین ٹی وی نے کہا کہ راکٹ حملوں کی ذمہ داری القدس بریگیڈز نے قبول کی جو ایران کی حمایت یافتہ فلسطینی اسلامی جہاد تحریک کا مسلح ونگ ہیں۔
جمعرات کو جنوبی لبنان سے اسرائیل کی جانب 30 سے زیادہ راکٹ فائر کیے گئے تھے، جس کے بعد لبنان اور غزہ میں اسلامی تحریک حماس سے منسلک مقامات پر اسرائیل کی جانب سے سرحد پار جوابی حملے کیے گئے۔
یروشلم میں مسجد اقصیٰ پر حالیہ دنوں میں اسرائیلی پولیس کے چھاپوں سے پوری عرب دنیا میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی، جس کے بعد اسرائیل اور فلسطینی گروپوں کے مابین تیزی سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران سرحد پار حملوں کا یہ تبادلہ ہوا۔
اسرائیل نے کہا کہ ان کارروائیوں کا مقصد ان گروہوں کو ختم کرنا تھا جنہیں پولیس انتہا پسند کہتی ہے جو پٹاخوں اور پتھروں سے لیس تھے اور مسجد میں چھپ گئے تھے۔
تاہم رمضان کے مقدس مہینے کے دوران چھاپوں نے اسرائیل کے امریکی اتحادیوں میں بھی شدید ردعمل اور تشویش پیدا کی، مسجد کے اندر سے سامنے آنے والی موبائل فون کی فوٹیجز میں پولیس کو نمازیوں کو مارتے ہوئے دکھایا گیا۔
یروشلم کے قدیم شہر میں مسجد الاقصیٰ جو مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے مقدس ہے اور دونوں کے درمیان خاص طور پر یہودی زائرین کی جانب سے مسجد کے احاطے میں غیر مسلم عبادات پر پابندی کی خلاف ورزی کے باعث ایک دیرینہ تنازع کا نکتہ رہا ہے۔
سال 2021 میں وہاں پر تشدد نے اسرائیل اور حماس کے درمیان 10 روزہ جنگ شروع کرنے میں مدد کی تھی۔