اسلام آباد (ویب ڈیسک): وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہےکہ نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بینچ غیر قانونی ہے مگر بینچ پھر بھی بضد ہے اور فیصلے کرنے کو تیار ہے، سینئر ترین جج نے بینچ کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا ہے، اندیشہ ہے اس بینچ کا فیصلہ بھی 14 مئی کے الیکشن کے فیصلے سے دوچار نہ ہو۔قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ کل بینچ میں شامل سینئر ترین جج نےکہا کہ میں اس عدالت کو نہیں مانتا، اگر میں یہ بات کروں تو توہین عدالت کا مرتکب ہوجاؤں، پٹیشن دائرکرنے سے پہلے دو سینئر وکلا چیئرمین پی ٹی آئی سے ملے اور چیئرمین پی ٹی آئی کے بعد یہ چیف جسٹس پاکستان سے ملے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے آئینی مؤقف اپنایا تو 2 سینئر وکلا منتیں کرنے لگے کہ بینچ سے نہ اٹھیں، وہ دو سینئر وکلا جوعمرکے اس حصے میں ہیں جن کی جسمانی وذہنی حالت درست نہیں، اب مجھے لگتا ہے کہ وہ دونوں وکلا اپنی اننگز کھیل چکے ہیں، وہ دونوں وکلا اپنا جنازہ ہی خراب کررہے ہیں۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے فیصلوں کی طاقت غیر جانبداری، شفافیت اور انصاف میں ہے، پنجاب میں الیکشن کے فیصلے پرعمل نہ ہوسکا اور اب وہ تاریخ کا حصہ ہے، یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ بارکونسلز اور ایسوسی ایشنزنے فل بینچ کی استدعا کی، اس پارلیمنٹ نے بھی فل بینچ کی بات کی لیکن نہیں مانی گئی، سب نے ہاتھ جوڑکرچیف جسٹس کو کہا الیکشن معاملے پرلارجربینچ بنادیا جائے لیکن چیف جسٹس نے لارجربینچ کے بجائے 3 رکنی بینچ کا فیصلہ صادرکیا، پھر اس فیصلے پر کیا ہوا سب نے دیکھا۔
رانا ثنااللہ نے مزید کہا کہ 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کا فیصلہ ہوا لیکن افسوس 14 مئی کو پنجاب کے الیکشن پر عمل نہیں ہوسکا، سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل ہونا چاہیے مگر مرضی کے بینچ بنا کرمرضی کے فیصلے کرائےجائیں گے تو ان میں قوت نہیں ہوتی، عدلیہ کے فیصلوں کی طاقت شفافیت میں ہے، 7 سے 3 رکنی بینچ کےفیصلوں کو مسلط کرنے کی کوشش کی گئی مگر نتیجہ سامنے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق چیف جسٹس بینچ بنا دیں تو کوئی جج کو مائنس نہیں کرسکتا، کل فوری طور پر ججوں کو مائنس کرکے نیا بینچ بنا دیاگیا، اس میں کیا جلدی ہے، کیا بات ہے، قوم کو سمجھ آرہا ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ ہمارے بحران سے نہ نکلنے کی ایک وجہ عدالتیں اور جج صاحبان کا انصاف نہ کرنا ہے، عدالتیں یا ججز ان لاز کا شکار ہیں یا وہ سیاست کررہے ہیں، کہیں مدر ان لا کا معاملہ ہے کہیں سن ان لا کا معاملہ ہے، جو بینچ فیصلے کرنے جارہا ہے، اس کے نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت نہیں، نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بینچ غیر قانونی ہے مگر بینچ پھر بھی بضد ہے اور فیصلے کرنے کو تیار ہے، سینئر ترین جج نے بینچ کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا ہے، اندیشہ ہے ایسی بینچ کافیصلہ بھی 14 مئی کے الیکشن کے فیصلے سے دوچار نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ 1952 کے تحت ٹرائل نہیں ہوسکتا توپھر اسے کالعدم قرار دے دیں، جوآرمی تنصیبات پرحملہ آور ہوگا تو اس کا ٹرائل ٹریفک لا نہیں آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا، آرمی ایکٹ کےتحت ٹرائل ملٹری کورٹ کے ذریعے ہوگا، کیا ان لوگوں کے ہیومن رائٹس ہیں جنہوں نے شہدا کی بے حرمتی کی؟ لیفٹیننٹ ارسلان شہید کی بہنوں اور ماں کا کوئی ہیومن رائٹس نہیں؟ میجر اسحاق کی بیوہ اور 6 ماہ کی بچی کا کوئی ہیومن رائٹس نہیں؟ کیا صرف ان لوگوں کا حق ہے جو سازش اور منصوبہ بندی کریں۔