کراچی (ویب ڈیسک): کراچی سے پشاور تک 1726کلومیٹر پر محیط مین لائن –ون (ایم ایل ون) ریلوے منصوبے پر عمل درآمد عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی منظوری اور وزارت خزانہ کی چین سے 6 ارب 67 کروڑ ڈالر قرض کے لیے خودمختار گارنٹی فراہم کرنے سے مشروط ہے، حالانکہ منصوبے کے لاگت میں 32 فیصد کمی کی گئی ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دوسری طرف اسلام آباد اور کوئٹہ کے حکام کے پاس عالمی بینک سے 40 کروڑ ڈالر کا رعایتی قرض حاصل کرنے کا وقت ختم ہو رہا ہے، جبکہ بلوچستان میں سیلاب کی بحالی کے ایک بڑے منصوبے پر پیش رفت بیورکریسی کے مسائل اور منصوبے کی تیاری کے چیلنجوں کی وجہ سے سے نہیں ہو رہی۔
یہ ایک سینئر حکام کی طرف سے تفصیلی پس منظر کی میڈیا بریفنگ کے اہم نکات ہیں، انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ گزشتہ برس سیلاب کے بعد جنیوا میں کانفرنس کے دوران اسلامی ترقیاتی بینک کی جانب سے 4 ارب 20 کروڑ ڈالر میں شامل 3 ارب ڈالر تیل کی فنانسنگ سیلاب کی مدد کا حصہ نہیں ہے، اس طرح جدہ میں مقیم عالمی قرض دہندہ کی جانب سے سیلاب کے بعد بحالی اور تعمیرنو کے لیے تقریباً ایک ارب ڈالر کی فنانسنگ بچتی ہے۔
لہذا جنیوا میں سیلاب کے حوالے سے کیے گئے وعدوں کی کل رقم 7 ارب 40 کروڑ ڈالر بنتی ہے، جواُس وقت کی حکومت کی طرف سے مختلف اعلانات کے ذریعے بتائی گئی رقم سے نمایاں طور پر کم ہے۔
ایم ایل ون کے حوالے سے حکام نے بتایا کہ فریم ورک معاہدے پر مئی 2017 میں دستخط کیے گئے تھے، قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) نے اگست 2020 میں منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 9 ارب 80 کروڑ ڈالر لگایا تھا۔
تاہم اسلام آباد میں بدلتی ترجیحات اور حکومتوں کے درمیان یہ منصوبہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہا، اس بات کی توقع ہے کہ پاکستان اور چین ایک باضابطہ اعلان کریں گے اور نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے بیجنگ کے آئندہ دورے کے دوران ایک ضمیمہ پر دستخط کیا جائے گا، جہاں وہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کریں۔
منصوبے کی لاگت نظرثانی کے بعد اب دونوں فریقین کی جانب سے 6 کروڑ 67 لاکھ ڈالر کر دی گئی ہے، ظاہر ہے اس سے منصوبے کا دائرہ کار اور معیار کم ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں حکام نے بتایا کہ حتٰی کہ چینی قرض کا نظرثانی شدہ حجم بھی ایک مسئلہ ہے اور اس کے لیے پوزیشن کے لحاظ سے آئی ایم ایف کی رضامندی درکار ہوگی، اور قرض کے لیے خودمختار ضمانتیں جاری کرنے کی گنجائش کے بارے میں وزارت خزانہ کی جانب سے وضاحت کی جائے گی۔
قرض دہندہ کی جانب سے ہدایت کردہ قانون کے مطابق حکومت ایک سال میں جی ڈی پی کے 2 فیصد سے زائد کی گارنٹی جاری نہیں کرسکتی، نظرثانی شدہ لاگت کے باوجود اس کی لاگت تقریباً اس حد کے برابر ہے۔
تاہم حکام نے وضاحت کی کہ وزارت ریلوے کو ایک ’قابل عمل اور پائیدار‘ کاروباری منصوبہ اور ایکنک کی منظوری کے لیے نظر ثانی شدہ پی سی ون لانا ہوگا۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر 25-2024 کے بجٹ میں رقم مختص کی گئی، اور عالمی بولی کا عمل وقت پر مکمل کیا گیا، تو منصوبے کا پہلا مرحلہ اگلے برس شروع ہو سکتا ہے۔
اس منصوبے میں اہم تبدیلی ٹرینوں کی رفتار کو 160 کلومیٹر فی گھنٹہ سے کم کر کے 120 کلومیٹر فی گھنٹہ اور 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کے درمیان کرنا ہے۔
لاگت کو کم کرنے کے لیے پروجیکٹ کے ڈیزائن سے کئی پل، انڈر پاسز اور فلائی اوور ختم کر دیے جائیں گے، جہاں موجودہ ڈھانچے ٹریفک کو برقرار رکھ سکیں گے، جبکہ انڈر پاسز اور فلائی اوور شہروں اور قصبوں تک محدود ہوں گے۔
نظرثانی شدہ پروجیکٹ کو تین مرحلوں میں بھی لاگو کیا جائے گا، جس کا آغاز 2 اب 70 کروڑ ڈالر کے پیکیج ون سے ہوگا، جو پانچ سال میں مکمل ہوگا، اسی طرح 2 ارب 60 کروڑ ڈالر کے ساتھ دوسرا پیکیج کے 7 سال میں مکمل ہوگا، اور ایک ارب 40 کروڑ ڈالر مالیت کا پیکیج 3 چار سال میں مکمل کیا جائے گا۔