اسلام آباد (ویب ڈیسک): پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے 8 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے8 اگست کو اسمبلی تحلیل کرنےکی تجویز دی تھی، حکومت کو قانونی ماہرین نے بھی 8 اگست کی تجویز دی ہے۔ذرائع کا کہنا ہےکہ قومی اسمبلی توڑنےکے لیے 9 اور 10 اگست پر بھی غور کیا گیا تھا۔
قانونی ماہرین کے مطابق سمری پر صدر منظوری نہ دے تو اسمبلی 48 گھنٹے بعد تحلیل ہو جائے گی۔
خیال رہےکہ قومی اسمبلی کی مدت 12 اگست رات 12 بجے تک ہے، اسمبلی مدت سے قبل تحلیل ہونے پر عام انتخابات کرانے کے لیے نگران سیٹ اپ 90 دن کے لیے آئےگا۔
13 جولائی کو قوم سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے اگست 2023 میں معاملات نگران حکومت کے حوالے کرنےکا اعلان کیا تھا۔
اپنے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ 12 اگست 2023 کو ہم معاملات نگران حکومت کے سپردکر دیں گے۔
گزشتہ دنوں سیکرٹری جنرل پاکستان پیپلز پارٹی نیر بخاری نےکہا تھا کہ اسمبلیوں کو تحلیل کرنےکے بجائے ان کو مدت پوری کرنی دینی چاہیے۔
نیر بخاری کا کہنا تھا مدت پوری ہونے سے چند روز قبل اسمبلیاں ختم کرنے سے اچھا پیغام نہیں جائےگا، ملک میں عام انتخابات 12 اکتوبر تک ہوجانے چاہئیں۔
ماہرین کا کہنا ہےکہ آئین کا آرٹیکل 224 واضح ہےکہ جب قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری ہونے پر تحلیل ہوگی تو 60 روز کے اندر نئے الیکشن کرائے جائیں گے، قبل از وقت اسمبلی تحلیل کی صور ت میں 90 روز کے اندر انتخابات ہوں گے۔
آرٹیکل 112 کے ذریعے اگر صدر وزیراعظم کی سمری پر دستخط نہیں کرتے تو 48 گھنٹے کے اندر اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جائےگی ، جس کے بعد وزیراعظم نگران حکومت کے لیے اپوزیشن لیڈر کو خط لکھےگا اور دونوں طرف سے نگران وزیراعظم کے لیے دو دو نام بھیجے جائیں گے۔
تین دن کے اندر نگران وزیراعظم پر اتفاق نہ ہوا تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائےگا، جس میں دونوں کی مساوی نمائندگی ہوگی۔
پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھی تین دن کی مہلت ہوگی اور 3 دن میں اگر پارلیمانی کمیٹی نے نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہ کیا تو حتمی فیصلے کے لیے معاملہ چیف الیکشن کمشنر کو جائےگا، چیف الیکشن کمشنر دو دن کے اندر کیئر ٹیکرز کا فیصلہ کرنےکا پابند ہوگا۔