کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے درمیان ہونے والی پہلی ملاقات میں میئر کراچی کے معاملے پر اتفاق نہ ہو سکا۔ رہنما پیپلز پارٹی سعید غنی کی قیادت میں نجی عالم اور امتیاز شیخ جماعت اسلامی کے مرکز پہچنے جہاں انہوں نے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کی سربراہی میں جماعت اسلامی کے وفد سے کراچی کے بلدیاتی الیکشن اور میئر کے حوالے سے بات چیت کی۔
بعد ازاں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا بلدیاتی الیکشن کےنتائج پر ہمارے شدید تحفظات ہیں، سعید غنی یہاں آئے اور انہوں نے یقین دلایا ہے کہ جہاں جہاں یہ چیزیں بہتر بنا سکتے ہیں بنائیں گے، جہاں ہمیں لگاحکومت اپنا اثر نہیں ڈال رہی تو بات چیت بڑھا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کچھ جگہوں پر دوبارہ گنتی کا عمل جاری ہے، ہمیں جو تکلیف پیش آئی وہ فارم 11 اور فارم 12 کا حصول تھا، نتائج لینے کے معاملے پر بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، دوبارہ گنتی کے نتیجے میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں، نتیجوں کی تبدیلی پر ہم نے جدوجہد کی اور احتجاج بھی کیا، دوبارہ گنتی کے عمل میں بھی غلطیاں ہورہی ہیں، پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے بھی مثبت جواب دیا ہے، امید ہے سعید غنی اور ان کی ٹیم ہمارے مسائل کو دیکھے گی، مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے۔
صدر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن سعید غنی کا کہنا تھا جماعت اسلامی نے اچھی خاصی نشستیں جیتی ہیں، ہم شروع سے چاہتےہیں کہ جماعت اسلامی اورپیپلز پارٹی مل کر چلیں، جماعت کا پی پی کے ساتھ چلنا شہر کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کےتحفظات اور اعتراضات دورکرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے، آگے بات چیت کے مراحل جاری رکھیں گے۔
یاد رہے کہ کراچی میں 15 جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا جبکہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی دونوں ہی انتخابات میں زیادہ نشستیں جیتنے کی دعویدار ہیں۔
اس حوالے سے سعید غنی کا کہنا تھا جماعت اسلامی کے ساتھ معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے تیار ہیں، میئر کراچی کس جماعت کا ہو گا اس معاملے پر بیٹھ کر بات ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کا مؤقف ہے کہ پہلے پیپلز پارٹی جماعت اسلامی کو نمبر ون پارٹی تسلیم کرے پھر بات چیت ہو سکتی ہے، ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں لیکن بات چیت سے حل بھی نکلنا چاہیے۔