اسلام آباد (ویب ڈیسک): سپریم کورٹ میں پنجاب اور کے پی انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرینگے اور چاہتے ہیں انتخابات وقت پر ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کررہا ہے ۔
لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے از خود نوٹس میں تین سوالات اٹھائے ہیں، پہلا سوال اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کی تاریخ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ دوسرا سوال انتخابات کی تاریخ دینے کا آئینی اختیار کب اور کیسے استعمال کرنا ہے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی ذمہ داری کیا ہے؟
عدالت نے ازخود نوٹس سی سی پی او غلام ڈوگر ٹرانسفرکیس میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہرنقوی کے نوٹ پرلیا ہے۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے آغاز پر عدالت نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار وضاحت طلب ہے، پنجاب اورکے پی اسمبلیاں 14 اور17 جنوری کو تحلیل ہوئیں، آرٹیکل 224/2 کے تحت انتخابات اسمبلی کی تحلیل سے90 دنوں میں ہونے ہوتے ہیں، آرٹیکل 224 ایک ٹائم فریم دیتا ہے۔
اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار وضاحت طلب ہے:
چیف جسٹس
عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، چاہتے ہیں انتخابات آئین کے مطابق ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے 3 معاملات کو سننا ہے، صدرپاکستان نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا، آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 دنوں میں انتخابات ہوں گے، سیکشن 57 کے تحت صدر نے انتخابات کا اعلان کیا ہے، دیکھنا ہے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تاریخ دینا کس کا اختیار ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انتحابات کا مسئلہ وضاحت طلب ہے، ہم ارادہ رکھتے ہیں کہ آپ سب کو سنیں گے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے سماعت طویل نہیں کریں گے، تیاری کریں کیس کی سماعت سوموار سے ہوگی۔
دورانِ سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے ازخود نوٹس سے متعلق کچھ تحفظات ہیں، یہ ازخود نوٹس نہیں بنتا، ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکر کی درخواستیں ہیں، یہ ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی کے نوٹ پرلیا گیا، اس کیس میں چیف الیکشن کمشنرکو بھی بلایا گیا جوکہ فریق نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ سوال دونوں اسمبلیوں کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں لیکن سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عملدرآمد کرانا ہے، ہم صرف آئین کی تشریح اور آئین کی عملداری کے لیے بیٹھے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ہم آج نوٹس جاری کریں گے، ہم اس معاملے کو طوالت نہیں دینا چاہتے اور نہ کوئی ابہام چھوڑنا چاہتے ہیں، ہم 2 بجے بیٹھے ہیں اور یہ ہمارے لیے غیرمعمولی ہے۔
سماعت میں اٹارنی جنرل نے وقت دینے کے لیے استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم صرف چند ضروری باتوں تک محدود رہیں گے، کیس کی تفصیلی سماعت اگلے ہفتے کریں گے۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا بھی ازخود نوٹس لیا جائے۔
دورانِ سماعت جسٹس جماعت مندوخیل نے کہا کہ اس ازخود نوٹس کیس پر اپنی آبزرویشن دینا چاہتا ہوں، یہ ازخودنوٹس کیس نہیں بنتا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کے سوموٹو پر کچھ تحفظات ہیں، ان کے تحفظات کو نوٹ کرلیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 224 کہتا ہے 90 روز میں انتخابات ہوں گے اور وقت جلدی سے گزر رہا ہے،ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل صبح 11 بجے تک ملتوی کردی۔