نیو دہلی (ویب ڈیسک): بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے راہول گاندھی کی ہتک عزت کیس میں سزا کو معطل کر دیا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف‘ پی کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے آنے والے فیصلے سے اپوزیشن کے سینئر سیاستدان کی نااہلی کے بعد پارلیمنٹ میں واپسی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔53 سالہ راہول گاندھی کو مارچ میں اس مقدمے میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جب کہ ناقدین نے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں قانون کی حکمرانی کو خطرات لاحق ہیں۔
سزا کے نتیجے میں انہیں قانون ساز اسمبلی سے باہر کردیا گیا لیکن سپریم کورٹ تک کیس کی اپیل کے مرحلے تک وہ جیل سے باہر رہے۔
ایک جج نے کہا کہ ابتدائی ٹرائل راہول گاندھی پر ان کے بیانات کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ سزا دینے کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا، انہوں نے چار سال قبل ایک انتخابی ریلی کے دوران یہ بیانات دیے تھے۔
راہول گاندھی اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی کے ایک اہم رہنما ہیں، ان کی پارٹی کبھی بھارتی سیاست کی ایک بڑی طاقت تھی۔
خیال رہے کہ راہول گاندھی ملک کے اہم اپوزیشن رہنماؤں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں جو 2024 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف وزارت عظمیٰ کے لیے انتخابات میں کھڑے ہوں گے، انہیں 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی سے بری طرح شکست ہوئی تھی۔
دوسری جانب نریندر مودی بھارت کے سب سے مقبول سیاست دان سمجھے جاتے ہیں اور 2024 کے عام انتخابات میں ان کا تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کا امکان ہے۔
راہول گاندھی، بھارت کے اہم سیاسی خاندان اور سابق وزرائے اعظم کے بیٹے، پوتے اور پڑپوتے بھی ہیں۔
راہول گاندھی کے خلاف حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رہنما نے 2019 کے عام انتخابات کے دوران ان کی ایک تقریر پر ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا جس میں انہوں نے ’مودی‘ ذات کو چوروں سے منسوب کیا تھا۔
قانون کے تحت 2 سال یا اس سے زیادہ قید کی سزا پانے والے قانون ساز خود بخود نااہل ہو جاتے ہیں۔
راہول گاندھی کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے بیان میں کہا گیا کہ ان کی تقریر جمہوری سیاسی سرگرمیوں کے دوران کی گئی، اس میں کہا گیا کہ اس کی سزا جمہوری آزادی اظہار کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔
نریندر مودی حکومت کے 9 سالہ اقتدار کے دوران اپوزیشن پارٹیوں اور اداروں کے خلاف بڑے پیمانے پر قانونی کارروائی کی گئی ہے۔
ملکی اور عالمی میڈیا بھی بڑھتے ہوئے دباؤ میں آگیا ہے، فروری میں ٹیکس انسپکٹرز نے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے مقامی دفاتر پر بھی چھاپا مارا تھا۔