اسلام آباد (ویب ڈیسک): سابق وزیراعظم و مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطابندیال کے سابق وزیراعظم عمران خان سے متعلق ریمارکس پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔گزشتہ روز سپریم کورٹ میں پیشی کے موقع پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ویلکم خان صاحب! آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔‘کابینہ اجلاس میں آج چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے عمران خان کیلئے ’آپ کو دیکھ کرخوشی ہوئی‘ سمیت دیگرکلمات کی شدید مذمت کی گئی ہے۔
اسلام آباد: وفاقی کابینہ کی عمران خان کی گرفتاری میں چیف جسٹس کی غیر معمولی مداخلت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ’’مس کنڈکٹ‘‘ قرار دے دیا۔
وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں اہم فیصلے کیے گئے۔
اجلاس نے ملک کی مجموعی صورتحال پر تفصیل سے غور کیا۔ وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے عمران خان کی القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں قانونی طور پر گرفتاری اور پھر اچانک سپریم کورٹ کے حکم پر رہائی سے متعلق حقائق پر کابینہ کو بریف کیا۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے 9 مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے حساس ریاستی اداروں، عمارتوں، جناح ہاؤس، شہداء اور غازیوں کی یادگاروں کی بے حرمتی، توڑ پھوڑ، قومی نشریات رکوانے، سوات موٹروے،ریڈیو پاکستان سمیت دیگر سرکاری ونجی املاک اور گاڑیوں کو جلانے، سرکاری اہلکاروں اور عام شہریوں پر تشدد، مریضوں کو اتار کر ایمبولینسز کو جلانے جیسے تمام واقعات کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ اسے آئینی وجمہوری احتجاج نہیں کہا جاسکتا، یہ دہشت گردی اور ملک دشمنی ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔
اجلاس نے 9 مئی کے واقعات کے خلاف مسلح افواج کے ترجمان کے بیان کی تائید و حمایت کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ریاست، آئین، قانون اور قومی وقار کے خلاف منظم دہشت گردی اور ملک و ریاستی دشمنی کرنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے اور آئین وقانون کے مطابق سخت ترین کارروائی کرکے ملوث عناصر کو عبرت کی مثال بنایا جائے۔
وفاقی کابینہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 75 سال میں پاکستان کا ازلی دشمن جو نہ کرسکا، وہ کام ایک شرپسند فارن فنڈڈ جماعت اور اس کے لیڈرز نے کر دکھایا ہے۔
اجلاس نے مسلح جتھوں کی برستی گولیوں میں عوام کی جان و مال اور ریاستی سرکاری و نجی املاک کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تحفظ اور دفاع کا فرض نبھانے والے افواج پاکستان، رینجرز، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے افسران اور اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کیا اور قومی خدمت کے اُن کے جذبے کو سراہا۔
کابینہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ یک جہتی کرتے ہوئے واضح کیا کہ لاقانونیت میں ملوث عناصر کے خلاف اُن کے اقدامات کے ساتھ ہیں۔
اجلاس نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کے ’اوپن اینڈ شٹ‘ کیس میں آئین، قانون اور مروجہ قانونی طریقہ کار کے مطابق گرفتاری پر غیرمعمولی مداخلت کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اسے ’مس کنڈکٹ‘ قرار دیتے ہوئے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
کابینہ نے چیف جسٹس کی جانب سے ’’آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘‘ (Good to see you) سمیت دیگر کلمات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عدل کی اعلیٰ ترین کرسی پر بیٹھے شخص کا ایک کرپشن کے مقدمے میں یہ اظہار خیال عدل کے ماتھے پر شرمناک دھبہ ہے۔ اسلام، مہذب دنیا اور عدالتی فورمز کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ طرز عمل کسی منصف کا ہرگز نہیں ہوسکتا۔
اجلاس نے صدر عارف علوی کے وزیراعظم شہبازشر یف کو خط کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ خط ثبوت ہے کہ صدر عارف علوی ریاست کے سربراہ سے زیادہ پارٹی کے ورکر نظر آرہے ہیں۔ ایک بار پھر انہوں نے آئین و پاکستان کے بجائے عمران خان سے اپنی تعبیداری کا ثبوت دیا ہے۔ صدر کے منصب پر بیٹھے شخص نے ایک بار پھر اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔
دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف کا اس پر کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے عمران خان کو کرپشن میں این آر او دے دیا.
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے عمران خان کو کرپشن میں این آر او دے دیا ہے اور اپنے لاڈلے کی کرپشن کا تحفظ کر رہے ہیں۔
وفاقی کابینہ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ 60 ارب روپے کی کرپشن کا معاملہ ہے لیکن عدلیہ عمران کے تحفظ کے لیے آہنی دیوار بن گئی ہے۔ اگر ایسا سلوک کرنا ہے تو ملک میں جتنے چور ڈاکو ہیں ان سب کو بھی چھوڑ دیں۔
انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کا روزانہ ٹرائل ہوتا تھا، کاش عدلیہ نواز شریف کو بھی کہتی آپ کو دیکھ کر اچھا لگا لیکن یہ دہرا معیار ہے جس نے انصاف کا جنازہ نکال دیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ 16 دسمبر اور 1971 کے بعد 9مئی پاکستان کے لیے المناک ترین دن تھا، یہاں ایک سے زیادہ مرتبہ کہا گیا کہ ملک کے حالات سری لنکا جیسے ہوں گے اور یہ منصوبہ 2018 سے شروع ہوچکا تھا، پوری قوم تقسیم در تقسیم ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان فاشست ڈکٹیٹر ہے جو دعا کر رہا ہے کہ ملک ڈیفالٹ کر جائے، جھوٹے کاغذ لہرا کر قوم کو تقسیم کیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ چیف جسٹس عمران خان کی کرپشن کا تحفظ کر رہے ہیں اور چیف جسٹس نے عمران خان کو کرپشن میں این آر او دے دیا۔ حکومت آئین پر سختی سے عمل کرے گی، جو بھی نتائج ہوں سامنا کرے گی۔
قبل ازیں، وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں ملکی سیاسی و معاشی صورتحال پر جائزہ لیا گیا۔ حکومتی قانونی ٹیم بھی وفاقی کابینہ اجلاس میں شریک ہوئی اور عمران خان کی گرفتاری اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر تفصیلی بریفنگ دی۔
دوسری جانب نواز شریف نے بھی چیف جسٹس عمر عطابندیال کے سابق وزیراعظم عمران خان سے متعلق ریمارکس پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔لندن میں میڈیا سے گفتگو میں نواز شریف کا کہنا تھاکہ چیف جسٹس نے عمران خان کو یہ تو کہا کہ آپ کودیکھ کرخوشی ہوئی، یہ بھی کہہ دیتےکہ آپ 60 ارب روپے لوٹ کرآئے ہیں،آپ سے مل کربڑی خوشی ہوئی۔
صحافی کے سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ ’گڈ لک ود یور 60 بلین روپیز‘۔