اسلام آباد(ویب ڈیسک): عدالت عظمیٰ میں ’’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل‘‘ کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 8 رکنی بینچ کررہا ہے، جس میں درخواست گزاروں کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ پیش ہوئے جب کہ اٹارنی جنرل پاکستان بھی سماعت کے موقع پر کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کی سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے ہیں، جس کے تحت رینجرز کی بڑی تعداد عدالت عظمیٰ کے اندر اور باہر موجود ہے جب کہ پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی ہے۔
درخواست گزار راجا عامر کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ موجودہ حالات میں یہ مقدمہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قاسم سوری کیس کے بعد سیاسی تفریق میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ قومی اسمبلی کی بحالی کے بعد سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا۔ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کروانے پر آمادہ نہیں۔
امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت کو انتخابات نہ کروانے پر از خود نوٹس لینا پڑا۔عدالت نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ 3اپریل کو عدالت نے دوبارہ انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ آئین پر عمل کرنے کے عدالتی حکم کے بعد مسائل زیادہ پیدا کیے گئے۔ عدالت اور ججز پر ذاتی تنقید کی گئی۔ حکومتی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ اس کے ذمے دار ہیں۔
وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ مجوزہ قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔ دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بل صدر کو بھجوایا گیا۔ صدر مملکت نے اعتراضات عائد کر کے بل اسمبلی کو واپس بھیجا۔ سیاسی اختلاف پر صدر کے اعتراضات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔ مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد 10 دن میں بل قانون بن جائے گا ۔ آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ اپنے رولز خود بناتی ہے۔
امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ بل کے تحت از خود نوٹس اور بینچز کی تشکیل کا فیصلہ 3 رکنی کمیٹی کرے گی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ بل قانون بننے کے لائق ہے؟۔ کابینہ کی جانب سے بل کی توثیق کرنا غیر قانونی ہے۔ بل کابینہ میں پیش کرنا اور منظوری دونوں انتظامی امور ہیں۔ بل کو اسمبلی میں پیش کرنا اور منظوری لینا بھی غیر آئینی ہے۔بل زیر التوا نہیں بلکہ مجوزہ ایکٹ ہے۔
وکیل نے کہا کہ صدر منظوری دیں یا نہ دیں ایکٹ قانون کا حصہ بن جائے گا۔ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس کے بغیر سپریم کورٹ کا کوئی وجود نہیں۔ چیف جسٹس کی تعیناتی ہی سے سپریم کورٹ مکمل ہو کر کام شروع کرتی ہے۔ چیف جسٹس کے بغیر دیگر ججز موجود ہوں بھی تو عدالت مکمل نہیں ہوتی۔
امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ چیف جسٹس اور ججز کے اختیارات کم نہیں کیے جاسکتے۔چیف جسٹس کا آفس کوئی اور جج استعمال نہیں کر سکتا۔ چیف جسٹس کا دفتر 2 سینئر ججز کے ساتھ کیسے شیئر کیا جاسکتا ہے۔عدلیہ کی آزادی پر سپریم کورٹ کئی فیصلے دے چکی ہے۔ ریاست کے ہر ادارے کے اقدامات کا سپریم کورٹ جائزہ لے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ قاسم سوری کیس میں قرار دے چکی ہے کہ پارلیمنٹ کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ماضی میں عدالت قرار دے چکی ہے کہ بل کو پاس ہونے سے نہیں روکا جاسکتا۔ بل پاس ہوجائے تو عدالت اسکا جائزہ لے سکتی ۔ عدالتی فیصلے کے مطابق صدر کی منظوری سے پہلے بھی مجوزہ ایکٹ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید کہا کہ عدالت آئین کی محافظ اور انصاف کرنے لیے بااختیار اور تمام ادارے سپریم کورٹ کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔ سپریم کورٹ کے رولز موجود ہیں جن میں پارلیمنٹ ترمیم نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے جس کو آئین کا مکمل تحفظ حاصل ہے۔ آپ کے مطابق پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کی طرح عدلیہ کو بھی آئینی تحفظ حاصل ہے۔
امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ صدر ریاست پاکستان کی وحدانیت کی علامت ہے۔ صدر کا عہدہ صرف رسمی نوعیت کا نہیں ہے۔ صدر نے بل کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کی۔ اسمبلی منظوری کے بعد بل میں ترمیم نہیں ہوسکتی۔ بل کی منظوری کے بعد قانون سازی کا عمل مکمل تصور ہوتا ہے۔ عدالت کا موجودہ کیس میں حکم زیر التوا قانون سازی میں مداخلت نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ اپنا کام مکمل کرچکی، اس لیے یہ مداخلت تصور نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ عدالت عظمیٰ میں 8 رکنی لارجر بینچ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کررہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر،جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بینچ میں شامل ہیں جب کہ حالیہ دنوں میں اختلافی نوٹ لکھنے والے جج صاحبان لارجر بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ میں مجوزہ قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیخلاف 2 آئینی درخواستیں دائر کی گئی ہیں، جو چوہدری غلام حسین اور راجا عامر خان نامی شہریوں نے ایڈووکیٹ طارق رحیم اور اظہر صدیق کی وساطت سے دائر کیں اور جن میں وفاق، وزارت قانون، وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اور صدر عارف علوی کے پرنسپل سیکرٹری کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مجوزہ سپریم کورٹ پریکٹس پروسیجر بل بد نیتی پر مبنی ہے، مجوزہ بل آئین کے ساتھ فراڈ ہے۔ درخواستوں میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ مجوزہ بل کو غیر آئینی غیر قانونی قرا دے کر کالعدم کیا جائے، آئینی درخواست پر فیصلہ ہونے تک مجوزہ قانون کو معطل کیا جائے،صدر مملکت کو مجوزہ بل پر دستخط کرنے سے روکا جائے۔