کومالیہ خیبرپختونخوا (ویب ڈیسک): خیبرپختونخوا کے ضلع بالائی کوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی شہری پر مزدوروں کی جانب سے توہین مذہب کے الزامات عائد کیے گئے، جس کے بعد اسے گرفتار کر لیا گیا۔کومالیہ کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) نصیر الدین نے گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کر لی گئی ہے۔
ہیوی گاڑی کے ڈرائیوروں گلستان اور یاسر کی شکایت پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
کومالیہ پولیس اسٹیش میں درج شکایت میں کہا گیا کہ اتوار کی رات پولیس افسر جہانزیب کو اطلاع ملی کہ ایک ہجوم بارسین کے قریب چینی کیمپ میں گھسنے کی کوشش کررہا ہے۔
مزید بتایا گیا کہ مقامی افراد نے مظاہرہ کیا اور کیمپ کے سائٹ آفس نمبر 6 کو نقصان پہنچایا۔
شکایت میں مزید کہا گیا کہ اطلاع ملنے کے بعد پولیس موقع پر پہنچ گئی اور علاقے کی صورتحال پر قابو پانے کے بعد ملزم کو بحفاظت کومالیہ پولیس اسٹیشن منتقل کیا۔
تاہم، مزید کہا گیا کہ پیر کی علی الصبح بڑی تعداد میں لوگ کومالیہ اسٹیشن پہنچے اور ایک بار پھر قراقرم ہائی وے کو بلاک کر دیا، انہوں نے نعرے بازی بھی کی۔
پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی جس کے بعد مظاہرین نے شاہراہ قراقرم کو ٹریفک کے لیے کھول دیا، مقامی مذہبی رہنماؤں نے بھی مظاہرین پر زور دیا کہ احتجاج ختم کردیں۔
بعد ازاں ایس ایچ او نصیر الدین نے ڈان کو بتایا کہ ملزم کو پاک فوج کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایبٹ آباد منتقل کردیا گیا ہے کیونکہ پولیس کو خدشہ تھا کہ مقامی لوگ اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کا سیکشن 7 شامل کیا گیا ہے، چینی شہری کو ایبٹ آباد کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
’قیام پاکستان سے اب تک توہین مذہب کے الزام میں 89 شہریوں کو قتل کیا گیا‘
فروری 2022 میں پنجاب کے ضلع خانیوال کے دور دراز گاؤں میں ہجوم نے ایک شخص کو قرآن پاک کی مبینہ توہین کر نے پر پتھر مار کر قتل کردیا تھا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ دسمبر 2021 میں پیش آیا، جب سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مقامی فیکٹری کے منیجر پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا اور ان کی لاش نذرِ آتش کردی تھی۔
جنوری 2022 میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ 1947سے2021 تک توہین مذہب کے الزامات میں 18 خواتین اور 71 مردوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، اب تک 107 خواتین اور ایک ہزار 308 مردوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سال 2011 سے 2021 کے دوران ایک ہزار 287 شہریوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے۔
محقیقین کا ماننا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوگی کیونکہ توہین مذہب کے تمام کیسز میڈیا پر رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ 70 فیصد سے زائد کیسز پنجاب میں رپورٹ ہوئے۔
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہےکہ 55 کیسز دارالحکومت اسلام آباد میں دائر کیے گئے، جو خیبر پختونخوا اور کشمیر میں رپورٹ ہونے والے مجموعی کیسز سے زیادہ ہیں۔
علاوہ ازیں پنجاب میں سب سے زیادہ ایک ہزار 98 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ سندھ دوسرے نمبر پر ہے جہاں توہین مذہب کے 177 کیسز رپورٹ ہوچکے ہی، اس زمرے میں خیبر پختونخوا میں 33، بلوچستان میں 12 جبکہ آزاد جموں و کشمیر میں 11 کیسز سامنے آچکے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال عدالت نے غیر قانونی قرار دیا ہے، اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانون سازوں کو تجویز دی تھی کہ موجودہ قانون میں ترمیم کریں تاکہ ایسے افراد جو توہین مذہب کے غلط الزامات لگاتے ہیں انہیں یکساں سزا دی جائے۔