وائٹ ہاؤس (ویب ڈیسک): امریکا نے شام کو دوبارہ تسلیم کرنے کے حوالے سے عرب لیگ کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں بدترین خانہ جنگی کے بعد صدر بشار الاسد تعلقات بحال کیے جانے کے حقدار نہ تھے۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہم اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ شام کو اس وقت عرب لیگ میں دوبارہ شمولیت کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم بشار الاسد حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر نہیں لائیں گے اور ہم ایسا کرنے والے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کی بھی حمایت نہیں کرتے۔
کانگریس کے اہم ارکان نے اس حوالے سے بہت سخت لہجہ اختیار کیا اور امریکا پر زور دیا کہ وہ اسد کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے سے روکنے کے لیے پابندیوں کی طاقت کا استعمال کرے۔
ایوان کی امور خارجہ کی کمیٹی کے ریپبلکن چیئرمین مائیک میکول اور پینل پر سرفہرست ڈیموکریٹ گریگوری میکس کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ بشارالاسد کو عرب لیگ میں دوبارہ شامل کرنا ایک سنگین اسٹریٹجک غلطی ہے جو بشار الاسد، روس اور ایران کی جانب سے شہریوں کا قتل عام جاری رکھنے اور مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ بشار الاسد تبدیل نہیں ہوئے، وہ اپنے مظالم جاری رکھیں گے جبکہ ایک عالمی نظیر بھی قائم ہو گی کہ بے رحم آمر اپنے جرائم کے لیے احتساب کا انتظار کر سکتے ہیں۔
کانگریس نے امریکا کو جنگ کے دوران ہونے والی زیادتیوں کی جوابدہی کے بغیر تعمیر نو کے لیے کسی بھی مدد سے روک دیا ہے۔
امریکا کی جانب سے بار بار بیانات کے باوجود عرب لیگ میں شام کو شامل کر لیا گیا تھا جہاں عرب لیگ نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ بشار الاسد نے جنگ جیت لی ہے جس میں 2011 سے اب تک 5لاکھ افراد ہلاک اور جنگ سے پہلے آبادی میں سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئی۔
ویدانت پٹیل نے عرب ممالک سے اختلاف رائے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے اپنے بہت سے عرب شراکت داروں کے ساتھ شام کے معاملے پر مشترکہ مقاصد رکھتا ہے۔
ویدانت پٹیل نے کہا کہ ہم شام کے حوالے سے اپنے عرب شراکت داروں کے ساتھ متعدد یکساں اہداف رکھتے ہیں جن میں سے ایک شام کے بحران کے حل تک پہنچنا بھی ہے جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کے مطابق ہے۔