کراچی (اسپورٹس ڈیسک): پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی نے اس سال ایشیا کپ کی سری لنکا ممکنہ منتقلی کی مخالفت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کی طرف سے ان کی تجویز کو قبول نہیں کیا گیا تو پاکستان کرکٹ حکام سنجیدگی سے علاقائی ٹورنامنٹ کے بائیکاٹ پر غور کر رہے ہیں۔ایک نجی انگریزی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پریس ٹرسٹ آف انڈیا نیوز ایجنسی نے منگل کی رات کو رپورٹ کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی عبوری کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی نے منگل کے روز دبئی میں ایشین کرکٹ کونسل کے حکام کے ساتھ ملاقات کے دوران بھارت کی جانب ایشیا کپ کی ستمبر میں پاکستان میں شیڈول ایشیا کپ بھارت کی جانب ٹیم بھیجنے سے انکار کے بعد پی سی بی کے تجویز کردہ ہائبرڈ ماڈل کے حصے کے طور ایونٹ کی متحدہ عرب امارات کی جگہ سری لنکا منتقلی کے اقدام پر اعتراض کیا۔
کرک انفو کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا کرکٹ اور بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ نے ہائبرڈ ماڈل کو مسترد کر دیا تھا۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے پی سی بی کے معتبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سیٹھی نے زور دیا ہے کہ ایشین کرکٹ کونسل کو ایشیا کپ کے لیے پاکستان کے نظرثانی شدہ ہائبرڈ ماڈل کی تجویز کو قبول کرنا چاہیے اور اگر اراکین کی اکثریت اسے کسی اور جگہ پر منعقد کروانا چاہتی ہے تو اسے 2018 اور 2022 کی طرح متحدہ عرب امارات میں ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ بی سی سی آئی نے ایشین کرکٹ کونسل سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ستمبر میں شدید گرمی کے سبب متحدہ عرب امارات میں کھیلنا مشکل ہو گا لیکن نجم سیٹھی نے بھارتی بورڈ کے ان تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ بی سی سی آئی نے 2020 میں اپنی انڈین پریمیئر لیگ متحدہ عرب امارات میں ستمبر سے نومبر میں منعقد کی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ پی سی بی کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ سری لنکن بورڈ نے بی سی سی آئی کی پس پردہ حمایت کی بدولت ایشین کرکٹ کونسل کو بتایا تھا کہ وہ اس سال ایشیا کپ کی میزبانی کرنا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حیرت کی بات ہے کیونکہ اس سے قبل فروری میں ایشین کرکٹ کونسل کے بورڈ کے آخری اجلاس میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان نے سری لنکا کی تجویز کو مسترد کر دیا تھا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ پاکستان ایشیا کپ کا میزبان رہے گا۔
دبئی روانگی سے قبل نجم سیٹھی نے اپنے حکام سے کہا تھا کہ اگر ایشیا کپ پاکستان میں منعقد نہیں ہوتا ہے تو وہ اس سال ایشیا کپ ونڈو میں سہ ملکی یا چار ملکی ایونٹ پاکستان میں کرانے پر کام شروع کر دیں۔
پیر کو پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی ایک اور رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ایشین کرکٹ کونسل نے ایشیا کپ کو پاکستان سے باہر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، متحدہ عرب امارات میں انتہائی گرم موسم کے پیش نظر سری لنکا چھ ملکی ٹورنامنٹ کی میزبانی کے سب سے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آیا ہے۔
جوہری طاقت سے لیس دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایک عرصے سے جاری سفارتی تناؤ کی وجہ سے بی سی سی آئی کی جانب سے بھارتی ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کے بعد پی سی بی کو متبادل مقام تجویز کرنے پر مجبور کیا گیا۔
پی سی بی نے تجویز پیش کی تھی کہ بھارت اپنے ایشیا کپ کے میچز متحدہ عرب امارات میں کھیلے جبکہ پاکستان ایونٹ کے باقی میچوں کی میزبانی اپنی سرزمین پر کرے گا۔
ایشین کرکٹ کونسل کے ایک ذرائع نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو بتایا کہ نجم سیٹھی اس حوالے سے مدد حاصل کرنے کے لیے منگل کو دبئی میں تھے لیکن کسی نے بھی ان کے پاکستان کے کراچی یا لاہور میں میچز کھیلنے اور بھارتی ٹیم کے متحدہ عرب امارات میں کھیلنے کی تجویز کو قبول نہیں کیا، سری لنکا ہمیشہ بی سی سی آئی کے ساتھ تھا اور اب یہاں تک کہ بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ بھی اس خیال کا مخالف نظر آتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایشین کرکٹ کونسل نے ہمیشہ سے یہ اصولی موقف برقرار رکھا ہے کہ اصولی طور پر ’ہائبرڈ ماڈل‘ ناقابل قبول ہے۔
اس کے علاوہ، یہ صرف پاکستان کے اپنے میچوں کی میزبانی کے بارے میں نہیں ہے، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر بھارت اور پاکستان ایک ہی گروپ میں ہوتے ہیں تو تیسری ٹیم کو دبئی اور پاکستان کے میزبان شہر کے درمیان سفر کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ منطقی طور پر براڈکاسٹر دو ممالک میں الگ الگ یونٹ نہیں بھیجنا چاہیں گے، متحدہ عرب امارات کی طرح سری لنکا میں انددرون شہر پروازوں کی ضرورت نہیں ہے جہاں آپ پریماداسا اسٹیڈیم، ایس ایس سی یا گال یا کینڈی میں کھیل سکتے ہیں۔
تاہم، اے سی سی کے چیئرمین جے شاہ کو فیصلے کو باضابطہ شکل دینے کے لیے ایگزیکٹو باڈی کا اجلاس بلانے کی ضرورت ہو گی۔
ذرائع نے مزید کہا کہ اب دیکھنا ہو گا کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان ایونٹ میں شرکت کرتا ہے یا ورلڈ کپ کے لیے بھارت آنے کے خلاف فیصلہ کرتا ہے، یہاں تک کہ آئی سی سی بھی ورلڈ کپ کے دوران پاکستان کے میچز بھارت سے باہر منعقد کرانے پر راضی نہیں ہو گا، تو دیکھتے ہیں کہ پی سی بی کیا فیصلہ کرتا ہے۔