اسلام آباد (ویب ڈیسک): بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اسٹاف لیول معاہدہ کرنے کیلئے پاکستان سے پارلیمنٹ سے بجٹ کی منظوری سے قبل آئندہ مالی سال کے بجٹ کے فریم ورک پر نظر ثانی کا مطالبہ کردیا ہے۔بجٹ میں تبدیلی کے بغیر آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول کا معاہدہ نہیں ہو سکتا۔پاکستان اور آئی ایم ایف بجٹ فریم ورک سے متعلق معاہدے کیلئے کوششیں کررہے ہیں اور اگر یہ فریم ورک طے پاگیا تو اس کے نتیجے میں سالانہ بجٹ کی منظوری کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جس میں نظر ثانی کرتے ہوئے ایف بی آر کے ٹیکس اہداف کو بڑھانا اور خزانے کے اخراجات کو کم کرنا بھی شامل ہوسکتا ہے۔
واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان ہونے والے ویڈیو اجلاس میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جاری مذاکرات سے آگاہ ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ پاکستانی فریق نے آئی ایم ایف کے ساتھ آئندہ مالی سال کے نظرثانی شدہ بجٹ کے تخمینے شیئر کیے ہیں لیکن ابھی تک وسیع تر معاہدہ ہونا باقی ہے۔ اسی لیے وزیر خزانہ کی اختتامی تقریر میں تاخیر ہوئی جیسا کہ پہلے یہ جمعہ کو ہونا تھی، اب یہ ہفتہ (آج) یا پیر کو کی جاسکتی ہے۔
اعلیٰ سرکاری ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ جمعرات اور جمعہ کی شب منعقدہ ورچوئل مذاکرات کے آخری 2 راؤنڈ میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان گھنٹوں طویل مذاکرات ہوئے جس میں اسلام آباد نے آئی ایم ایف کے ساتھ نظرثانی شدہ بجٹ کا فریم ورک پیش کیا لیکن ابھی تک وسیع تر معاہدہ جمعہ کی نصف شب تک حاصل نہیں ہوسکا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی آئی ایم ایف کے ایم ڈی سے پیرس میں ملاقات کے بعد پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ورچوئل مذکرات کے دو ادوار ہوئے ہیں تاکہ اسٹاف لیول معاہدے کیلئے آخری کوشش کی جاسکے۔
رابطہ کرنے پر ایک عہدیدار نے بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران شدید مصروفیات جاری ہیں لہٰذا کچھ مثبت نتائج کی امید ہے لیکن ابھی تک فی الوقت کسی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہے۔
آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان گھنٹوں پر مبنی ورچوئل مذاکرات کے مثبت نتائج آسکتے ہیں اور فریقین اسٹاف لیول معاہدے کیلئے آگے بڑھے ہیں۔
آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ کی سہولت کے جاری 6.7 ارب ڈالر کا جاری پروگرام 30 جون 2023 کو مکمل ہونا ہے۔
آئی ایم ایف نے تین بڑے مسائل کو اجاگر کیا تھا جن میں بجٹ فریم ورک میں ٹیکس بڑھانے میں ناکامی، ٹیکس اخراجات کو ختم کرنا، ٹیکس ایمنسٹی اسکیم، بیرون ملک سے معاشی خلا کو پورا کرنا اور تھرڈ مارکیٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ مقرر کرنا شامل ہے۔