تربت (ویب ڈیسک): تربت کے ایک سیشن جج نے پولیس کو مبینہ مقابلوں کے دوران 4 افراد کے قتل میں ملوث کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سی ٹی ڈی نے جمعرات کو تربت میں پسنی روڈ بس ٹرمینل کے قریب خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کی گئی کارروائی میں 4 ’دہشت گردوں‘ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
قتل کیے جانے والوں میں سے ایک بالاچ مولا بخش کے اہل خانہ نے سی ٹی ڈی کے مؤقف سے اختلاف کیا اور دعویٰ کیا کہ بالاچ مولا بخش 29 اکتوبر کو گرفتار کیے جانے کے بعد سے حراست میں تھا اور اسے جعلی مقابلے میں مارا گیا۔
مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے ہمراہ لواحقین جمعرات سے فدا شہید چوک پر بالاچ مولا بخش کی میت رکھ کر دھرنا دے رہے ہیں۔
گزشتہ روز احتجاج کے تیسرے روز بھی مظاہرین نے تربت کی اہم سڑکوں پر مارچ کیا اور سیشن کورٹ کے سامنے جمع ہوئے۔
تربت میں جمعرات سے مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے، دکانیں، کاروباری مراکز اور بازار دن بھر بند رہے ہیں، اطلاعات کے مطابق تربت اور مکران ڈویژن کے دیگر علاقوں کے درمیان احتجاج کے باعث ٹریفک میں بھی خلل پڑا۔
گزشتہ روز ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں گوادر کی ’حق دو تحریک‘ کے رہنما مولانا ہدایت الرحمان، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ماما قدیر، بلوچ ویمن فورم کی چیئرپرسن ڈاکٹر شالی بلوچ، بی این پی مینگل کے ساجد ترین اور سیاسی رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔
انہوں نے مبینہ پولیس مقابلوں کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے حکام کو خبردار کیا کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کی گرفتاری تک بالاچ مولا بخش کی لاش کے ساتھ دھرنا جاری رہے گا۔
تربت کے ڈپٹی کمشنر حسن بلوچ نے مظاہرین سے مذاکرات کیے تاہم انہوں نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔