نیویارک (ویب ڈیسک): نیویارک میں سلامتی کونسل کے اجلاس میں زیر بحث اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور طالبان اور القاعدہ سے وابستہ دیگر گروہ، داعش (آئی ایس) کو نیٹو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے 2 عہدیداروں نے سیکیورٹی کونسل کو بتایا کہ داعش اور اس سے وابستہ کالعدم ٹی ٹی پی جیسی تنظیمیں، جوکہ اب نیٹو ہتھیاروں سے لیس ہیں، شورش زدہ علاقوں اور پڑوسی ممالک کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں۔
واضح رہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے اندر طویل عرصے سے حملے جاری ہیں جبکہ حال ہی میں عسکریت پسند گروہ داعش-خراسان نے بھی پاکستان کے اندر حملے کیے ہیں، رواں برس جولائی میں جے یو آئی (ف) کے کنونشن پر حملہ کیا گیا جس میں 40 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔
تاہم افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان دعووں کو ’بےبنیاد‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ (ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ میں ردعمل دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان میں داعش کی سرگرمیاں بہت کم ہوکر اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ افغانستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کے بارے میں اس طرح کا منفی پروپیگنڈہ پھیلا رہے ہیں، اُن کے پاس یا تو معلومات کی کمی ہے یا پھر وہ اس پروپیگنڈے کو داعش اور اس کے اہداف کو اخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
عالمی امن اور سلامتی کو داعش کی جانب سے لاحق خطرے پر سیکریٹری جنرل کی 17ویں رپورٹ پیش کیے جانے کے بعد اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے دفتر (یو این او سی ٹی) کے سربراہ ولادیمیر وورونکوف اور انسداد دہشت گردی کمیٹی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نتالیہ گرمن نے اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل کو بریفنگ دی۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نیٹو کے وہ ہتھیار، جوکہ عام طور پر سابق افغان نیشنل ڈیفنس اور سیکیورٹی فورسز کو فراہم کیے گئے تھے، اب طالبان اور القاعدہ سے وابستہ گروہوں مثلاً کالعدم ٹی ٹی پی اور مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کو منتقل کیے جا رہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ افغانستان میں طالبان کے قبضے کے ساتھ اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے افغانستان کے اندر اور ہمسایہ ریاستوں میں بڑی مقدار میں ہتھیاروں اور دیگر فوجی سازوسامان کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کیا۔
رپورٹ کے مطابق داعش نے ایک ’انڈسٹری کمیٹی‘ بھی بنا رکھی ہے تاکہ ہتھیار سازی میں بہتری کے نئے راستے تلاش کیے جا سکیں اور دیسی ساختہ دھماکا خیز آلات اور ڈرونز کے لیے پے لوڈز میں اضافے جیسی دیگر چیزیں بنائی جاسکیں۔
ولادیمیر وورونکوف نے کونسل کو بتایا کہ افغانستان کی صورت حال تیزی سے پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے، ہتھیار اور گولہ بارود دہشت گردوں کے ہاتھ لگنےکا خدشہ اب عملی شکل اختیار کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ داعش-خراسان کی اندرون ملک آپریشنل صلاحیتوں میں مبینہ طور پر اضافہ ہوا ہے، جس کے تحت اس گروہ کے اب طالبان اور اپنے عالمی اہداف کے خلاف حملے منظم ہوتے جارہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسداد دہشت گردی کمیٹی نے خبردار کیا کہ افغانستان میں تقریباً 20 مختلف دہشت گرد گروہوں کی موجودگی اور سرگرمیاں، طالبان حکام کے جابرانہ اقدامات، پائیدار ترقی کی عدم موجودگی اور ایک سنگین انسانی بحران خطے اور اس کے اطراف کے لیے اہم چیلنجز ہیں۔
انسداد دہشت گردی کمیٹی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نتالیہ گرمن نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں اور ان کوششوں کے لیے عالمی سطح پر تعاون کا مظاہرہ کریں۔