کراچی (ویب مانیٹرنگ ڈیسک): اگر آپ کو ہر وقت تھکاوٹ یا نقاہت کا احساس ہوتا ہے تو ایسا صرف آپ کے ساتھ ہی نہیں ہوتا۔ اس طرح کی تھکاوٹ یا سستی کا سامنا دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو ہوتا ہے۔ کئی بار اس کا سامنا نیند کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے مگر کسی بیماری کے شکار ہونے سے بھی ایسا ہوسکتا ہے۔
ویسے تو تھکاوٹ کا سامنا ہر فرد کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ہوتا ہے مگر ہر وقت طاری رہنے والی تھکاوٹ سے معیار زندگی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
ہر وقت تھکاوٹ کا باعث بننے والی عام وجوہات جان لیں۔
اگر آپ کی نیند کا دورانیہ 6 گھنٹے سے بھی کم ہے تو ہر وقت تھکاوٹ کے احساس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ نیند کی کمی سے توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے جبکہ صحت بھی خراب ہوسکتی ہے۔ اس کا حل بہت سادہ ہے اور وہ ہے ہر رات 7 سے 8 گھنٹے کی نیند۔ اس کے ساتھ ساتھ نیند کا ایک وقت یا شیڈول بھی طے کرنا ضروری ہے۔ سلیپ اپنیا کے شکار افراد کی سانس نیند کے دوران بار بار رکتی ہے جس سے خراٹوں کے ساتھ ساتھ متعدد طبی پیچیدگیوں کا خطرہ بھی بڑھتا ہے، جبکہ 8 گھنٹے کی نیند کے باوجود تھکاوٹ کا احساس برقرار رہتا ہے۔
اس کا حل کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہے جو تشخیص کرکے علاج تجویز کرسکتا ہے۔
بہت کم مقدار میں کھانے سے بھی تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے جبکہ فاسٹ فوڈ کا شوق بھی اس مسئلے کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس کا حل بھی آسان ہے اور وہ ہے متوازن غذا کا استعمال۔ اچھے ناشتے کو اپنے معمولات کا حصہ بنائیں جبکہ دن بھر میں ایسی غذا کا استعمال کریں جو جسمانی توانائی میں اضافہ کرے۔
خون کی کمی بھی ہر وقت تھکاوٹ کا باعث بننے والی اہم وجہ ہے۔ خون کے سرخ خلیات ہمارے جسم کے ہر حصے تک آکسیجن پہنچانے کا کام کرتے ہیں مگر خون کی کمی کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا، جس سے ہر وقت تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے۔ خون کی کمی کو مختلف غذاؤں جیسے کلیجی، بیج، مچھلی اور دیگر آئرن سے بھرپور غذاؤں سے دور کیا جاسکتا ہے، مگر اس حوالے سے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔
اگر آپ کے خیال میں ڈپریشن صرف ذہنی مسئلہ ہے تو یہ جان لیں کہ اس سے جسم پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تھکاوٹ، سردرد اور کھانے کی خواہش ختم ہوجانا ڈپریشن کی عام علامات ہیں۔ اگر ذہنی طور پر مایوسی کے احساس کے ساتھ ساتھ تھکاوٹ کا سامنا کئی ہفتوں تک ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
گلے میں موجود تھائی رائیڈ غدود میٹابولزم کو کنٹرول کرتے ہیں یعنی وہ عمل جس سے جسم کھانے کو توانائی میں تبدیل کرتا ہے۔ جب تھائی رائیڈ کو مختلف مسائل کا سامنا ہو تو میٹابولزم کی رفتار سست ہوجاتی ہے جس کے باعث تھکاوٹ اور سستی جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے جبکہ جسمانی وزن بڑھنے لگتا ہے۔
چائے یا کافی میں موجود کیفین نامی جز سے ذہنی اور جسمانی طور پر الرٹ رہنے میں مدد ملتی ہے مگر اس کی زیادہ مقدار دل کی دھڑکن کی رفتار اور بلڈ پریشر کو بڑھا دیتی ہے، جس کے باعث تھکاوٹ کا احساس طاری ہوسکتا ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ معتدل مقدار میں چائے یا کافی کا استعمال کریں جبکہ سافٹ ڈرنکس سے دوری اختیار کریں۔
پیشاب کی نالی میں سوزش کے شکار افراد کو پیشاب میں جلن اور دیگر علامات کا سامنا ہوتا ہے مگر کئی بار واضح علامات سامنے نہیں آتیں۔
درحقیقت اکثر ایسے کیسز میں تھکاوٹ ہی واحد علامت ہوتی ہے اور ایک ٹیسٹ سے بیماری کی تشخیص ہوتی ہے۔
ذیابیطس کے مریضوں میں بلڈ شوگر کی سطح بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ خون میں موجود یہ شکر جسمانی توانائی کے لیے ایندھن میں تبدیل نہیں ہوتی جس کے نتیجے میں جسم کمزوری اور تھکاوٹ محسوس کرنے لگتا ہے۔ اگر اکثر بغیر کسی وجہ کے تھکاوٹ کا احساس ہو تو شوگر ٹیسٹ کرالینا چاہیے۔
پانی کم پینا بھی ہر وقت تھکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔ ہمارے جسم کو مختلف افعال کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور جسم کو پانی کی کمی کا سامنا ہو تو تھکاوٹ سمیت مختلف علامات سامنے آتی ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ دن بھر میں مناسب مقدار میں پانی پینا عادت بنالیں۔
جسم میں پانی کی سطح کا اندازہ پیشاب کی رنگت سے کیا جاسکتا ہے، اگر وہ ہلکے زرد رنگ کا ہو تو یہ جسم میں مناسب مقدار میں پانی کی موجودگی کا عندیہ ہوتا ہے۔
اگر روزمرہ کے عام کاموں کو کرنے کے دوران تھکاوٹ کا سامنا ہو تو یہ امراض قلب کی نشانی بھی ہوسکتی ہے۔ اگر ایسے کام کرنے میں مشکل محسوس ہو جو پہلے بہت آسانی سے کرلیتے تھے تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
اگر کسی مخصوص غذا کو کھانے کے بعد تھکاوٹ اور غنودگی کا احساس ہو تو ہوسکتا ہے کہ آپ کو اس غذا سے الرجی ہو۔ یہ الرجی اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ خارش ہو بس تھکاوٹ کا احساس طاری رہتا ہے۔