(ویب ڈیسک): اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کی سماعت میں ریمارکس دیے کہ غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا اور نا ہی یہ کہتا ہے ہم سے غلطی ہوگئی جب کہ ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکے جاؤ۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس سماعت کی جس دوران چکوال کے درخواست گزار کمرہ عدالت میں درخواست دائرکرنے سے ہی مکر گئے اور کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر نہیں کی۔
درخواست گزار راجہ شیر بلال، ابرار احمد اور ایم آصف ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے عدالت میں کہا کہ ہم نےسپریم کورٹ میں درخواست دائر نہیں کی، اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کسی نے آپ کے نام اور رہائشی پتے کیسے استعمال کیے؟ کیا آپ بغیر اجازت درخواست دائرکرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوائیں گے؟
درخواست گزار نے کہا کہ اگر آپ کی سرپرستی ہوگی تو ہم ایف آئی آر کٹوائیں گے،اس پر چیف جسٹس نے کہا ہم کیوں سرپرستی کریں؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ٹی وی پربیٹھ کر ہمیں درس دیا جاتا ہے کہ عدالتوں کو کیسے چلنا چاہیے، پہلے ہم پر بمباری کی جاتی ہے پھر پیش ہوکر کہتے ہیں کیس ہی نہیں چلانا، ملک کو تباہ کرنے کے لیے ہر کوئی اپنا حصہ ڈال رہا ہے، سچ بولنے سے کیوں ڈرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا غلط خبر پر کوئی معافی تک نہیں مانگتا اور نا ہی یہ کہتا ہے ہم سے غلطی ہوگئی ہے، غلطیاں تو جیسے صرف سپریم کورٹ کے جج ہی کرتے ہیں، بس فون اٹھایا اور صحافی بن گئے کہ ہمارے ذرائع ہیں ،کسی کے کوئی ذرائع نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم کچھ کرتے نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ بس پتھر پھینکے جاؤ، باہر ملک میں ایساہوتا تو ہتک عزت کےکیس میں جیبیں خالی ہوجاتیں۔