تحریر: محمد خالد معراج عباسی سکندری
کراچی (ویبڈیسک): یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں برطانوی سامراج کے خلاف واحد گوریلا جنگ حر جماعت نے ہی لڑی، جس میں سینکڑوں حروں نے وطن کی خاطر اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کیا۔ حروں نے اپنی سرزمین کی آزادی کے لئے انگریزون کے خلاف ایک سو سال تک مسلسل مسلح جدوجہد اور مزاحمت کی تا آنکہ پاکستان آزاد ھوا۔پیر پگارہ اول سید صبغت اللہ شاہ راشدی رحمت اللہ علیہ نے اپنے عقیدت مندوں کا نام حر رکھا اور انہیں حکم دیا کہ وہ تیار رہیں اور پنجاب کے سکھہ حکمران رنجیت سنگھ کے مذموم عزائم کے خلاف مادر وطن کے دفاع کی خاطر ہتھیار اٹھائیں اور برطانوی استعماری قوتوں کے گھناونے ارادوں کو ناکام بنائیں۔
سندھ پہ برطانوی فوج کے حملے سے ٹھیک سترہ سال قبل سید احمد شہید بریلوی 1786ع میں بالا کوٹ جاتے ہوئے پیر جو گوٹھ آئے اور پیر پگارہ اول سید صبغت اللہ شاہ راشدی رحمت اللہ علیہ (1780-1831ء) کے ہاں مھمان بن کے ٹھہرے ۔ پیرپاگارہ اول نے 500 سپاہیوں، ہتھیاروں، کشتیوں کی شکل میں احمد شہید بریلوی کی مدد کی اور بالاکوٹ میں سکھ حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے مالی تعاون بھی کیا ۔ وہ بالا کوٹ میں اپنے سپاہیوں کے ساتھ ایک زبردست جنگ میں جام شہادت نوش فرما گئے۔ بعض روایات کے موجب جھاد کی تیاری کی لئے پیر صاحب پاگارہ اول نے سندھ، صحرائے تھر، رن آف کچھ اور راجستان انڈیا میں حر برادری کو خطوط بھی لکھے۔
1843ع میں جب برطانوی افواج نے سندھ کو اپنے قبضہ میں لیا تو میرپورخاص کے حکمران میر شیر محمد تالپور ‘ شیر سندہ’ نے ان کے خلاف گوریلا جنگ شروع کی۔ وہ لڑتے رہے یہاں تک کہ انہیں دس سال بعد شہید کر دیا گیا۔ شیر محمد تالپور پیر پگارہ کے ارادت مند تھے۔ اسی لیے خیرپور ریاست کے حکمران میر علی مراد تالپور نے ایک بار انگریز افواج کو خبردار بھی کیا تھا کہ در اصل یہ شیر سندھ نہیں بلکہ پیر پگارہ ہیں جو تم سے لڑ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ برطانوی حکومت کے پاس پیر پگارہ کی روحانی گدی کی طاقت اور پیروکاروں کی تصدیق شدہ معلومات تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سید علی گوھر شاہ راشدی (1816-1847ع) پیر پگارہ ثانی کے علاوہ سندھ کے تمام پیر اور میر 24 مئی 1844 ع کو تاج برطانیہ کی بیعت و اطاعت کرنے کے لیے دربار میں حاضر ھوئے تھے۔ لھذا حروں کی جانب سے ممکنہ مزاحمت کو محسوس کرتے ہوئے انگریز حکومت نے پیر پاگارہ اور حر جماعت پر کڑی نظر رکھنا شروع کردی ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ حر تحریک دو مرحلوں میں تقسیم ہے۔ پہلی تحریک 1843 ع سے 1896 ع تک اور دوسری تحریک 1040 ع سے 1952 ع تک۔
آئیے دونوں تحریکوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
پہلی حر تحریک (1843-1896ع)
پہلی حر تحریک یا بغاوت 1869ع میں دریا خان نظامانی کی قیادت میں برطانوی افواج کے خلاف شروع ہوئی جسے خیرپور کے کوٹ ڈیجی قلعے میں نظربند کر دیا گیا جہاں سے وہ فرار ہو گئے اور پھر شہید کئے گئے۔
بعد میں بچو بادشاہ اور پیرو وزیر نے اپنے بارہ ساتھیوں کے ساتھ ملکر بہروتیا نامی ایک متوازی حکومت سندھ کے ضلع سانگھڑ کے مکھی جنگل میں 1888 سے 1896ع تک آٹھ سال کے لیے قائم کی۔ 200 جھیلوں کا ایک جھرمٹ اور 1,124 مربع میل پر پھیلا ہوا مکھی جنگل دونوں حر تحریکوں کے دوران حروں کا مرکزی مورچہ اور پناہ گاہ رہا۔
برطانوی انتظامیہ بشمول ولیم ہنری لوکاس ڈپٹی کمشنر تھرپارکر، بدنام زمانہ ظالم انسپکٹر پولیس جولا سنگھ اور دیگر نے تمام حربے استعمال کیے لیکن سانگھڑ سرکار کو زیر کرنے میں ناکام رہے۔ جولا سنگھ کو بعد میں اس کے دیگر پولیس والوں کے سمیت گھات لگا کر حرون نے مار ڈالا۔ برطانوی حکومت نے بچو بادشاہ اور پیرو وزیر کو مار ڈالنے یا گرفتار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن انہیں کچھ خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی ۔ آخری حربے کے طور پر برطانوی حکومت نے ان کے روحانی پیشوا پیر پاگارہ پر دباؤ ڈالا کہ وہ بچو بادشاہ کو ہتھیار ڈالنے کی ہدایت کریں۔ اس دوران پیر پاگارہ کو جھکانے کے لیے ان پر جھوٹے الزامات کے تحت مقدمات بھی درج کر لیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی، پیر صاحب پاگارہ کو حروں کے اکثریتی آبادی والے اضلاع کا روحانی دورہ کرنے سے روک دیا گیا کیونکہ ان کے دورے حکومت کے خلاف مزاحمت کو ہوا دیتے اور حرون میں آزادی کی روح پھونکتے تھے۔ اس موقعہ پر کئی حروں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
تاریخی حوالوں کے مطابق پہلی حر تحریک کے دوران ہندوستان میں حر اسیروں کے لیے گیارہ حراستی کیمپس قائم کیے گئے تھے۔ ان اسیروں میں سے کچھ کو کالا پانی “انڈومان” پونا اور دیگر ہندوستانی جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ حکومت نے پیرپگارہ پر دباؤ ڈالا اور ساتھ ساتھ ہتھیار ڈالنے والوں کو عام معافی کا اعلان بھی کیا۔ انہی دنوں معززین کا ایک وفد پیر صاحب سے ملا۔ ان کی درخواست پر پیر صاحب نے بچو بادشاہ کو حکم بھیجا کہ وہ موت سے لڑیں یا ہتھیار ڈال دیں۔ پیرو وزیر نے برطانوی فوج پر حملہ کیا اور اپنی موت تک لڑا۔ کہا جاتا ہے کہ بچو بادشاہ ان دنوں ہندوستان کے دورے پر تھے جب وہ واپس آئے تو انہیں اپنے روحانی پیشوا سید شاہ مردان شاہ پیر پگارہ پنجم کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کا پیغام ملا۔ بچو بادشاہ اور اس کے پانچ ساتھیوں نے ہتھیار ڈال دیے لیکن وعدہ خلافی کرتے ھوئے انگریز سامراج نے انہیں 10 جون 1896ع کو سانگھڑ شہر میں سر عام پھانسی دے دی ۔ اس طرح یہ تحریک آیندہ چند برسوں تک ٹھنڈی پڑ گئی۔
زیادہ تر مورخین اور حر لکھاریوں کا خیال ہے کہ پیر پگارو ثانی سید علی گوہر شاہ جن کو ’’اصغر سائیں‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے انہیں بھی برطانوی حکومت نے خفیہ طور پر زہر دلوایا جس سے وہ وصال فرما گئے ۔
یہان یہ بتانا بھی ضروری ھے کہ سید حزب اللہ شاہ راشدی پیر پگارہ سوم (1890ء) نے ترکی کے خلیفہ سلطان عبدالحمید پاشا کو برطانوی جارحیت پسند ظالم حکومت کے مظالم کی طرف توجہ دلانے کے لیے فارسی زبان میں ایک خط لکھا اور انھیں اپنا کردار ادا کرنے کا کہا تھا تاھم پیر سید علی گوہر شاہ ثانی پیر پاگارہ چہارم (1858-1896 ع) اور سید شاہ مردان شاہ اول پیر پاگارہ پنجم (1860-1921ع) نے برطانوی حکومت کے خلاف تصادم کی پالیسی سے حتی الامکان گریز کیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ حروں کو دباؤ میں لانے کے لیے سانگھڑ میں بڑی تعداد میں ریٹائرڈ فوجیوں کو آباد کیا گیا۔ اس سلسلے میں برطانوی فوجی افسر مسٹر جیمز نے پنجابیوں، پٹھانوں اور بلوچوں کی ایک بڑی تعداد کو حروں کے قریب آباد کیا ۔ نواب شہباز خان بگٹی کے لوگ بھی وہاں آباد کئے گئے۔ آباد کاروں کو وہ زمینیں اور جائیدادیں الاٹ کی گئیں جوکہ حر جماعت سے ضبط کرلی گئی تھیں۔ تقریباً 200 چک تھے جو فوج کی نگرانی میں تیار کیے گئے۔ پنجابی زبان میں چک کا مطلب گاؤں ہے۔ ہر چک 1300 ایکڑ اراضی پر پھہلے ہوئے 80 بلاکس پر مشتمل تھا ۔
نامور بلوچ سیاستدان سردار شیر باز مزاری اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ انگریزوں نے حر بغاوت کو کچلنے کے لیے بہرام خان مزاری سے مدد مانگی لیکن انہوں نے انکار کردیا اور پھر بلوچ سردار نواب اکبر بگٹی کے بزرگوں نے انگریزی افواج کا ساتھ دیا اور بدلے اور صلے میں بگٹی سردار کو سانگھڑ میں 23 ہزار ایکڑ زمین دی گئی۔
مزید برآں، برطانوی حکام نے مکھی کے علاقے کے حروں کو سزا دینے کے لیے دم نامی کینال کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا کیوں کہ دم کینال کے پائی سے حر اپنی فصلیں کاشت کرتے تھے۔
دوسری حر تحریک (1941-1952ع)
دوسری حر تحریک سید صبغت اللہ شاہ پیر پاگارہ ششم (1909-1943ع) کی گرفتاری سے شروع ہوئی۔ ان کو پیار سے سورھیہ بادشاہ کہا جاتا ہے جس کا سندھی زبان میں مطلب ھے ایک بہادر بادشاہ ۔
سید شاہ مردان شاہ پیر پاگارہ پنجم کی وفات پر ان کے نابالغ بیٹے سید صبغت اللہ شاہ ان کے جانشین بنے۔ برطانوی حکومت نے نوجوان پاگارو سید صبغت اللہ شاہ راشدی سے دوستی کرنے کی کوشش کی اور سکھر کی منزل گاہ مسجد فسادات کے دوران ھندوؤں کو ان کی خدمات اور تحفظ فراہم کرنے کے اعتراف میں ڈپٹی کمشنر سکھر کے توسط سے ایک تلوار اور اعزاز سے نوازنے کا فیصلہ کیا۔ نوجوان پیر پاگارہ نے یہ کہتے ہوئے تلوار اور لقب لینے سے صاف انکار کر دیا کہ انہیں حکومت کی طرف سے کسی لقب یا تحفے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ نے انہیں پاگارہ کا لقب دیا ہے جو ان کے لئے کافی ہے.
پیر صاحب کا مزاج اور غیر متزلزل ارادے دیکھ کر برطانوی حکومت نے انہیں ھمیشہ کیلئے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔ مشھور تاریخدان ادیب ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، جناب محترمہ فہمیدہ کھہوڑو اور جناب کرنل وصال محمد کے مطابق پیر صاحب عرف سورھیہ بادشاہ کو 1929ع میں ایک لڑکے کو قید کرنے اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے من گھڑت الزامات کے تحت بیس سال کی عمر میں گرفتار کرلیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کا مقدمہ لڑا لیکن بے سود ثابت ھوا ۔ پہلی سماعت کے بعد ہی قائداعظم نے خود کو مقدمے سے الگ کرلیا اور پیر صاحب کو صاف بتایا کہ برطانوی حکومت آپ کو مجرم قرار دینے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ یہ بات سو فی صد سچ ثابت ہوئی جب عدالت نے پیر صاحب کو دس سال کی سزا سنائی۔ بعد میں عدالت نے اپیل پر سزا میں دو سال کی کمی کردی۔ پیر صاحب چھ سال تک ڈھاکہ، رتناگیری، مدنا پور، علی پور کی جیلوں میں رہے۔ سزا کے دوران ان کے حسن سلوک کی وجہ سے مزید دو سال کی سزا بھی معاف کر دی گئی تاھم چھ سال کے بعد سورھیہ بادشاہ کو 1936ع میں رہا کر دیا گیا۔ جیل کی سختیوں نے ان کے یقین کو اور مضبوط کیا، اسی وجہ سے وہ پرعزم اور نڈر پیر کے طور پر ابھرے۔ آزادی کے بعد انہوں نے 1937ع میں حج کیا ۔ واپس آکر حروں کے حوصلے بلند کرنے اور ان کی تنظیم نو کے لیے سات ماہ تک سندھ بھر کا روحانی دورہ کیا۔
1939ع میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی اور انگریز جرمنی کے خلاف جنگ لڑنے میں مصروف تھے۔ پیر صاحب نے سوچا کہ یہ مزاحمت اور آزادی کی جنگ لڑنے کا موزوں وقت ہے۔
جی ایم سید صاحب لکھتے ہیں کہ ’’میں پیر صاحب سے مسلم لیگ میں شامل ہونے کے لیے ملا، انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میرا مشن آزادی یا موت ہے۔ پھر، انہوں نے کیٹی، پیر جو گوٹھ، خیرپور اور گڑنگ بنگلو، سانگھڑ میں غازیوں کو بھرتی کیا اور ان کی مشقوں اور جسمانی تربیت کی نگرانی کی۔
کچھ دنوں بعد پیر جو گوٹھ کے قریب کچے کے علاقے ھادل شاہ میں چونکہ سورھیہ بادشاہ برطانوی حکومت کی کڑی نگرانی میں تھے اس لیے غلام رسول شاہ ناظم پولیس خیرپور میرس انہیں دوبارہ گرفتار کرکے کراچی لے گئے اور میر خدا بخش کے بنگلے میں نظر بند کر دیا۔ گورنر سندھ نے انہیں کراچی میں رہنے کی ہدایت کی مگر پیر صاحب نے کراچی سے یہ کہہ کر پیر جو گوٹھ کے لیے روانگی کی کہ وہ عدالت کے حکم کے بغیر نہیں رہ سکتے۔
واپس جاکے غازیوں اور آزادی پسندوں کی فہرستیں تیار کرنے کے لیے انہوں نے سانگھڑ کا دورہ کیا اور اپنے غیر شادی شدہ حروں کو مدعو کیا۔ نوجوان پیروکاروں نے غازی بننے پر بخوشی آمادگی ظاہر کی اور جوق در جوق غازیوں میں اپنے نام لکھوائے ۔تقریباً 8000 غازیوں نے ہرحال میں سورھیہ بادشاہ کے حکم کی تعمیل کرنے کا عہد کیا، اسی دوران سورھیہ بادشاہ کو جون 1941ع میں نئے گورنر ھیو ڈاؤ سے ملاقات کے لیے بلایا گیا، اب کی بار گورنر نے سورھیہ بادشاہ کو کراچی چھوڑنے سے روک دیا۔ وہ ینگ وومن کرسٹیان ایسوسی ایشن کے ہاسٹل کے سامنے بندر روڈ پر واقع میر خدا بخش کے بنگلے میں ٹھہرے۔ آپ نے اس وقت کے وزیر داخلہ سر غلام حسین ہدایت اللہ سے کچھ دنوں کے لیے جانے کی اجازت بھی طلب کی مگر اس کے برعکس سندھ کے گورنر نے وائسرائے انڈیا کے نام اپنے خط میں ان کی گرفتاری اور سندھ سے جلاوطنی کا مشورہ لکہہ بھیجا۔ گورنر کی طرف سے ان کی درخواست پر عمل کرنے میں ہچکچاہٹ سے ناراض ہو کر پیر صاحب اکتوبر کے مہینے میں کراچی چھوڑ گئے اور نظر بندی کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے براہ راست سانگھڑ چلے گئے۔ سورہیہ بادشاہ نے حر کمانڈروں سے ملاقات کی اور ضروری ہدایات جاری کیں، پھر وہ فوراً پیر جو گوٹھ گئے اور یہاں بھی ہدایات جاری کیں۔ اگلے ہی دن انہیں بغاوت کے الزام میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور سی پی، انڈیا کی سیونی جیل لے جایا گیا۔ پھانسی دینے کی صورت میں سورھیہ بادشاہ نے پہلے ہی حروں کو مسلح جدوجہد کا منصوبہ دے دیا تھا۔ اب حروں نے برطانوی فوج کے خلاف مسلح تحریک شروع کردی ۔ پیر صاحب کی رہائش گاہ اور درگاہ پیرجوگوٹھ کی قلعہ نما دیوار پر بمباری کی گئی اور ایک ارب کی جائیداد ضبط بھی کر لی گئی۔ ان کے اھل خانہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ تقریباً ایک سال کے بعد حیدرآباد جیل میں پیر صاحب کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا۔ پیرصاحب نے ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہ نواز بھٹو کے ذریعے نامور وکیل قائداعظم محمد علی جناح کی خدمات حاصل کرنے کی پوری کوشش کی لیکن قائداعظم نے یہ عذرلنگ پیش کرکے صاف انکار کر دیا کہ ان کے پاس وقت نہیں۔ نتیجتا نوشھروفیروز ضلعہ کے ھالانی شہر کے رھائشی سرکاری پراسیکیوٹر مسٹر دیئل داس نے آپ کا مقدمہ لڑا۔ حیدرآباد جیل میں تین دن تک فرضی ٹرائل جاری رہا۔ تاھم، سورھیہ بادشاہ کو سزائے موت کے ساتھ مجرم قرار دیا گیا اور پھر 20 مارچ 1943ع کو حیدرآباد جیل میں جلد بازی میں پھانسی بھی دے دی گئی۔
کہتے ہیں مسٹر دیئل داس نے ایک بار اپنے مرشد پیر آف جھوک شریف سے کہا تھا کہ سورھیہ بادشاہ کو عدالت نے سزا سنائی حالانکہ وہ مجرم ثابت نہیں ہوئے تھے۔
سورھیہ بادشاہ کی شہادت کے بعد حروں نے بغیر کسی ہتھیار کے خالی ہاتھ آزادی کی جدوجہد شروع کردی تھی یا تو انہوں نے دوستوں سے بندوقیں جمع کیں یا ان لوگوں سے زبردستی بندوقیں چھین لیں جو ان کے مالک تھے۔ ابتدائی دنوں میں، ریاست خیرپور کے چیف پولیس غلام رسول شاہ کو جنہوں نے سورھیہ بادشاہ کو گرفتار کیا تھا، 14 مارچ 1942 ع پہ کھنواری گائوں تعلقہ نارو، خیرپور میرس میں حملہ کرکے قتل کر دیا۔ اس تصادم میں پانچ فوجی ہلاک اور دس زخمی ہوئے، جب کہ نو حر شہید ھوئے۔ ایچ ٹی لیمبرک نے اپنی کتاب ’The Terrorist‘ میں اس مقابلے کو کھنوار کی جنگ کا نام دیا ہے۔
حروں نے انگریز حکومت کے خلاف گوریلا جنگ کو اپنایا۔ وہ صرف برطانوی حکومت کو بھاری نقصان پہنچانے کے لیے اہم عوامی تنصیبات پر حملہ کرتے تھے۔ انہوں نے ٹیلی گراف کی لائنیں/ تاریں تباہ کر دیں اور مختلف جگہوں پر مختلف ٹرینیں پٹڑی سے اتریں۔ حروں نے اڈیرو لال اسٹیشن ٹنڈو آدم پر ایک خفیہ اطلاع پر فوجی ٹرین کو پٹڑی سے اتارنے کا منصوبہ بنایا۔ فوجی ٹرین تکنیکی وجوہات کی بنا پر وہان روک دی گئی۔ بدقسمتی سے فوجی ٹرین کے بجائے لاہور میل اسے کراس کرتے ہوئے پٹڑی سے اتار دی گئی جس میں اس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ غلام حسین ہدایت اللہ کی بیٹے جاں بحق ہوگئے۔ اس حملے میں 30 افراد زخمی ہوئے۔ ان ہی دنوں ایک اور حملے میں سابق وزیراعلیٰ سندھ الٰہی بخش سومرو کو حرون نے شکارپور میں اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا جب وہ تانگہ پر ریلوے سٹیشن سے گھر واپس جا رہے تھے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ حروں نے کبھی کسی شہری کو نشانہ نہیں بنایا، سر غلام حسین کے بیٹے کو اس کی چیخ و پکار کی وجہ سے مارا گیا جیساکہ بچ جانے والے حملہ آور حروں نے 1992ع میں ایک سندھی کتاب ” مڑیا متھے مچ ” میں شائع ہونے والے انٹرویو میں کہا ھے ۔ حرون کے بقول سومرو صاحب کو اس لئے مارا گیا کہ اس نے اقتدار کے نشے میں عمرکوٹ میں ایک سیاسی اجتماع میں سورھیہ بادشاہ اور حرون کے بارے میں بدزبانی کرتے ھوئے کھلے عام حروں کو چیلنج کیا تھا۔ اس کے علاوہ پولیس کی ایک بس پر بھی حملہ کیا گیا جس میں ایک افسر سمیت تیرہ پولیس اہلکار مارے گئے۔
مزید برآں، مخالفین کو نقصان پہنچانے یا برطانوی فوج کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے کئی نہروں کو بھی شگاف ڈالا گیا۔ مندجمڑاؤ کینال میں بھی شگاف ڈالا گیا۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس لہر میں یکے بعد دیگرے کم از کم مسلسل پچاس بڑے حملے کئے گئے۔ سورھیہ بادشاہ کی گرفتاری سے لے کر 1947ع میں ملک کی آزادی تک سات سالوں میں حروں اور برطانوی افواج کے درمیان ان گنت مقابلے اور حملے ہوئے۔ برطانوی فوج نے حر آبادیوں پہ ھوائی جہازوں کے ذریعے شیڈنگ کی جو آمریکا سے لیے گئے تھے۔
برطانوی حکومت کو جلد ہی احساس ہوا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود تحریک روز بروز زور پکڑ رہی ہے۔ سندھ حکومت نے انگریز سامراج کے ایماء پہ نمک حلالی کرتے ھوئے ایک گھنٹے کے اندر اندر “حر سپریشن بل” منظور کیا اور ہندوستان میں پہلی بار سندھ کے حروں کے زیر تسلط اضلاع میں یکم جون 1942ع کو مارشل لا نافذ کرکے مسٹر ایچ ٹی لیمبرک کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر تعینات کیا گیا۔
20 مارچ 1943ع کو حیدرآباد جیل میں سورھیہ بادشاہ کو پھانسی دینے کے بعد ان کی لاش کو نامعلوم مقام پر انتھائی خفیہ نمونے سپرد خاک کر دیا گیا۔ ان کی تدفین کی جگہہ کو برطانوی حکومت نے خفیہ رکھا۔
محققین کا کہنا ہے کہ بعد میں انگلستان کی طرف سے پبلک کیے گئے افسران کے درمیان کی گئی سرکاری خط و کتابت بھی بہت گمراہ کن ھے اور جن خطوط میں تدفین کی جگہہ کے بارے میں بات چیت اور رائے کا ذکر کیا گیا ھے اس کے بارے میں کوئی حتمی اشارہ نہیں دیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یا تو حتمی فیصلے کا ذکر کرنے والے خطوط کو جان بوجھ کر ظاہر نہیں کیا گیا یا اس معاملے کو برطانوی حکومت کے مجاز حکام نے زبانی طور پر حتمی شکل دی ۔ یہی وجہ ھے کہ سورھیہ بادشاہ کی تدفین کی جگہ ابھی تک ایک معمہ ہے۔
پیر سید صبغت اللہ شاہ المعروف سورھیہ بادشاہ رحمت اللہ علیہ کے خاندان کو حراست میں لیا گیا، جائیدادیں ضبط کرلی گئیں اور ان کے بیٹوں کو علیگڑھ ہندوستان لے جایا گیا اور پھر لیور پول برطانیہ جلاوطن کر دیا گیا۔
مزید برآں، برطانوی فوج نے بڑے پیمانے پر ہر دیہات پر چھاپے اور حملے شروع کر دیے۔ انہوں نے حروں کے گھروں کو نذر آتش کیا، ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ حر خاندانوں کو اندھا دھند گرفتار کیا، اور حراستی کیمپوں میں نظر بند کر دیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے سندھ میں مختلف مقامات پر تقریبات بائیس کیمپ قائم کیے تھے۔ سینکڑوں حروں کے خلاف سنگین مقدمات درج کیے گئے جن پر بظاہر مقدمہ چلایا گیا اور بالآخر انہیں سرعام پھانسی دے دی گئی۔ ایک تخمینہ کے مطابق 200 سے زائد حر جنگجوؤں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا، مزے کی بات یہ کہ حکومت انہیں بھی سرعام پھانسی دیتی تھی۔ حیدر آباد اور سکھر جیلوں کے باھر اب بھی حر شہداء کے قبرستانوں کی زیارت کی جا سکتی ہے۔ حر آزادی پسندوں نے انگریز حکومت کے خلاف گیارہ سال تک اپنی جنگ جاری رکھی۔ حر گوریلوں کے کئی جنگجو مسلح گروہ تھے جو پاکستان کی آزادی تک مختلف علاقوں میں جنگی سرگرمیوں میں مصروف رھے۔ حر تحریک کے دوران ایم آئی سندھ کے سربراہ کرنل فلپ نے بعد مین سندھ میں اپنے دوست کو لکھے گئے خط میں اعتراف کیا کہ اگر ہم حر تحریک کو کچلنے میں کامیاب نہ ہوتے تو ایشیا میں انگریز سلطنت کا خاتمہ ہوچکا ہوتا اور سندھ کی آزادی کے ساتھ ہی بنگال بھی آزاد ہوچکا ہوتا۔
پاکستان 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا۔ سورھیہ بادشاہ کے بیٹوں شاہ مردان شاہ اور نادر علی شاہ کو آزادی کے پانچ سال بعد واپس وطن لایا گیا۔ حالانکہ وزیراعظم لیاقت علی خان کو آزادی کے پہلے دن سے اس طرف توجہ دلائی جا رھی تھی۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ حروں کے ساتھ ان کے اپنے آزاد ملک پاکستان نے بھی مجرموں جیسا سلوک کیا جس کے لیے انہوں نے اپنی جانیں، بچے اور جائیدادیں قربان کیں۔ وہ پاکستان کی جیلوں میں سڑ رہے تھے۔ نئے آنے والے پیر پاگارو سید شاہ مردان شاہ پیر پگارو ھفتم کو مطلوب حروں کو فوری طور پر ہتھیار ڈالنے کا حکم دینے پر مجبور کیا گیا۔ اگرچہ حروں نے اپنے روحانی پیشوا کے حکم پر ہتھیار ڈال دیے لیکن برطانوی حکومت کے دائر کردہ مقدمات کی بنیاد پر ان پر مقدمے چلائے گئے اور ان میں سے بعض کو پھانسی بھی دی گئی۔
پاکستان بننے کے بعد حروں نے وطن عزیز پاکستان کی حفاظت کے لئے افواج پاکستان کے شانہ بہ شانہ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ۔ 1965ع اور 1971ع کی جنگوں میں پاکستان کی سرحدون کے دفاع کے لیے پاگارو خاندان اور ان کے حروں کی قربانیوں کو تاریخ فراموش نہیں کر سکتی۔
زندہ قومیں اپنے قومی ھیروز کو یاد رکھتی ہیں ان کے دن مناتی ھیں ان کی قربانیوں کو یاد رکھا جاتا ھے تاکہ آنے والی نسلیں اپنے وطن کی قدر کریں اور ملک کے لئے جانیں قربان کرنے سے دریغ نا کریں۔ بلاشک و شبہ سورھیہ بادشاہ اور حروں کی قربانیاں وطن کی آزادی کی تاریخ کا ایک درخشندہ باب ھیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی مفادات سے بالاتر ھوکر 20 مارچ کو سرکاری طور پہ سورھیہ بادشاہ کی شہادت کا دن ڈکلیئر کر کے جوش و خروش سے منایا جائے تاکہ ھمارے نوجوانوں میں قومی حمیت وغیرت کا جذبہ پروان چڑھے۔ اور سورھیہ بادشاہ کی میت کی تلاش کے لئے تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے جو انکے مدفن کو منظر عام پہ لائے اور پھر ورثاء کی مرضی سے آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائے۔