کراچی (شوبز ڈیسک): ماضی کی مقبول اداکارہ ممتاز بیگم نے کہا ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری میں تعلیم یافتہ افراد کی قلت تھی جب کہ ماضی میں صرف ’جٹ لائن‘ فلمیں بننے کی وجہ سے انڈسٹری کو نقصان ہوا اگر ایسا نہ ہوتا یہ انڈسٹری کبھی زوال کا شکار نہ بنتی۔ممتاز بیگم کا شمار پاکستان کی اولین ہیروئنز میں ہوتا ہے، انہوں نے 1970 کے بعد کیریئر کا آغاز کیا اور تقریبا 200 فلموں میں کام کیا۔
انہوں نے بطور ڈانسر فلموں میں شمولیت اختیار کی اور اس وقت کے مقبول گانے ان کی پرفارمنس پر فلمائے گئے، بعد ازاں وہ تقریبا اس دور کے تمام مشہور ہیروز کے ساتھ اسکرین پر نظر آئیں۔
ممتاز بیگم پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال پذیر ہونے کے بعد بیرون ملک منتقل ہوگئے تھے اور حال ہی میں وہ کئی دہائیوں بعد وطن واپس آئی ہیں۔
انہوں نے وطن واپسی پر پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے ایک شو میں شرکت کی، جہاں انہوں نے کیریئر سمیت وطن واپسی کے معاملے پر کھل کر بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اب بھی پاکستان واپس نہیں آنا چاہ رہی تھیں لیکن انہیں اپنے بیٹے واپس لے آئے، کیوں کہ انہیں اداکاری کا شوق ہے۔
اداکارہ کے مطابق ان کے صاحبزادے انہیں زبردستی لے کر آئے ہیں اور اب وہ انہیں شوبز انڈسٹری میں دیکھنا چاہیں گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اعتراف کیا کہ اگرچہ ماضی میں غلطیوں کی وجہ سے ہماری فلم انڈسٹری زوال کا شکار ہوئی لیکن اس وقت انڈسٹری بہت اچھی طرح آگے بڑھ رہی ہے۔
ان کے مطابق اب نہ صرف فلم انڈسٹری میں پڑھے لکھے لوگ آ چکے ہیں بلکہ اب مختلف موضوعات پر تجربات بھی کیے جاتے ہیں اور ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی بھی ہے۔
انہوں نے اپنے کیریئر پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی پہلی فلم ’آنسو‘ تھی، جس میں انہوں نے ایک گانے میں پرفارمنس کی تھی لیکن ان کی پرفارمنس کو کاٹ دیا گیا، جس پر وہ کافی مایوس بھی ہوئیں اور کافی دیر تک روتی رہیں۔
ان کے مطابق بعد ازاں فلم ساز شمیم آرا نے انہیں اپنی فلم ’فرض‘ میں بطور ہیروئن کاسٹ کیا لیکن مذکورہ فلم ریلیز ہونے سے قبل ہدایت کار الیاس کاشمیری نے انہیں اپنی فلم ’ضد‘ میں گانوں پر پرفارمنس کروائی، جسے بہت سراہا گیا اور ان کے لیے انڈسٹری کے دروازے کھل گئے۔
ممتاز بیگم کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی واحد ہیروئن ہیں، جنہوں نے اپنے دور کے تمام مقبول ہیروز کے ساتھ کام کیا اور ان کی جوڑی کو سب کے ساتھ سراہا گیا۔
فلم انڈسٹری کے زوال کے اسباب پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ ماضی کی فلم انڈسٹری میں تعلیم کی کمی تھی اور اس وقت ایک ہی لائن ’جٹ لائن‘ پکڑی گئی، جس پر فلمیں بنائی جاتی رہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ایک ہی سیٹ ہوتا تھا، ایک ہی ہیروئن ہوتی تھی، ایک ہی موضوع ہوتا تھا، جس وجہ سے دیکھنے والے بھی بور ہوجاتے تھے۔
ممتاز بیگم کے مطابق موضوع اور سیٹ تبدیل کرنے کے علاوہ اگر ہیروئنز بھی تبدیل کی جاتیں اور جٹ لائن کے پیچھے نہ پڑا جاتا تو پاکستانی فلم انڈسٹری کبھی زوال کا شکار نہ بنتی۔