اسلام آباد (ویب ڈیسک):کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ جو اپنی نگرانی میں انتخابی دھاندلی کرانے کے الزام کے بعد بین الاقوامی شہرت حاصل کرچکے ہیں، ان کے پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے ساتھ بہترین تعلقات رہے ہیں جبکہ ان کے خلاف بدعنوانی کی 11 انکوائریز بھی زیرالتوا ہیں۔تاہم جنرل (ر) فیض حمید کے ذرائع نے کل ہونے والی چٹھہ کی پریس کانفرنس میں اپنے کسی کردار کی تردید کی ہے۔
ملک کے ایک بڑے روزنامہ میںشائع شدہ اسٹوری کے مطابق معاملات سے آگاہ ذرائع نے بتایا ہے کہ انہوں نے عمران خان کی بہن عظمیٰ خان کے لیے زمین کے حصول میں اہم کردار ادا کیا جسے بعد میں ایک سیٹلمنٹ میں تبدیل کردیا گیا اور جس کے بارے میں پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ چھان بین کر رہی ہے۔
عظمیٰ اور ان کے شوہر جو کہ اس کیس میں شریک ملزم ہیں اور ان دنوں ضمانت پر ہیں۔ خود چٹھہ کو بھی اے سی ای میں چھان بین کا سامنا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ چٹھہ سابق جاسوس چیف فیض حمید کے بھی قریب تھے۔ ان کے تعلقات سے آگاہ ایک ذریعے نے کہا کہ اس ( فیض ) نے تین مواقع پر اسے ( چٹھہ) کو ذاتی معاملات میں سہولت دینے کے لیے ہدایات جاری کیں جب جنرل فیض آئی ایس آئی کے سربراہ تھے۔ اسی طرح سے بیوروکریس میں چٹھہ کے ساتھیوں نے بھی مختلف واقعات کے حوالے سے بیان دیا ہے جب انہیں رعایات دی گئیں۔
عثمان بزدار کے ساتھ ان کی قربت بہت واضح تھی اور یہ چیز اس حقیقت سے واضح ہے کہ بزدار نے چھٹہ کو ڈیرہ غازی خان ڈویژن کا کمشنر لگایا تھا جہاں انہوں نے 2022 میں اس وقت تک خدمات انجام دیں جب تک کہ پی ٹی آئی کی حکومت عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے نکال نہیں دی گئی۔
یہی وہ وقت تھا جب انہوں نے لیہ میں اراضی کی خریداری کیلئے عظمیٰ خان کی مدد کی۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ بزدار کے دفتر میں ایک اجلا س ہوا تھا۔
ایک اندر کے آدمی کے مطابق اس وقت کے کمشنر ڈی جی خان چٹھہ نے اکٹھی زمین کو قطعات میں سیٹلمنٹ کرنے کی سفارش کی جس کے بغیر اس کا حصول ممکن نہیں تھا۔
اس حوالے سے عظمیٰ خان اور ان کے شوہر کے خلاف ڈیرہ خازی خان کے پولیس اسٹیشن میں ایک ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس میں عظمیٰ پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے 5261 کنال اراضی کم قیمت پر حاصل کی۔
ایف آئی آر کے مطابق اراضی کی مالیت 6 ارب روپے تھے جو کہ مبینہ طور پر 13 کروڑ میں جعلسازی کے ذریعے خریدی گئی۔ اس کی انکوائری میں چٹھہ کا نام بھی شامل ہے ۔ اس کے علاوہ بھی ان کے خلاف دیگر 10 انکوائریاں جاری ہیں جن میں انہیں بہت مرتبہ نوٹس جاری کیے گئےلیکن وہ ایک مرتبہ بھی ان میں پیش نہیں ہوئے۔
انہیں جن انکوائریز کا سامنا ہے ان میں بدعنوانی اور غلط اقدامات کے الزامات ہیں جو انہیں نے ترقیاتی اور ڈیزائین کمیٹی کی منظوری کے لیے، لاہور انٹرٹینمنٹ سٹی کے لیے اتھارٹی کے غلط استعمال، اور نجی اراضی کی غیر قانونی ملکیت اور نجی لوگوں کو رقم کی ادائیگی نہ کرنے کے الزامات ہیں۔
مزید برآں ان کے خلاف گجرات، سرگودھا، راولپنڈی کے جمخانہ کلب کی غیر مجاز تعمیرات کرنے اور فنڈز کے غلط استعمال کے حوالے سے انکوائریاں بھی شامل ہیں۔