اسلام آباد (ویب ڈیسک): رواں مالی سال کے دوران عوام پر735 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کے باوجود بجٹ خسارہ ملکی تاریخ میں 6.22 ٹریلین یا 62کھرب 20ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کا نظرثانی شدہ تخمینہ لگایا گیا ہے۔
بجٹ خسارے پر نظرثانی آئی ایم ایف سے مذاکرات کی روشنی میں کی گئی ہے جس میں بجٹ اخراجات کے اعداوشمار کم دکھائے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ نظرثانی شدہ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے7.4 فیصد کے برابر ہے جس کے بعد قرضوں کی ری سٹرکچرنگ ہی قابل عمل آپشن بچتا ہے۔
گزشتہ سال جون میں بجٹ پیش کرتے وقت 45 کھرب روپے بجٹ خسارے کا تخمینہ تھا جس میں اب 17کھرب یا 37فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ دسمبر میں آئی ایم ایف کو بتائے جانے والے خسارے سے بھی یہ 690 ارب روپے زیادہ ہے۔
قبل ازیں حکومت آئی ایم ایف کو بدترین خسارے کے درست اعدادوشمار بتانے سے گریزاں تھی تاہم آئی ایم ایف مالیاتی فریم ورک پر اسی صورت آمادہ ہونے پر راضی ہوا کہ اسے حقیقت سے قریب اعداد وشمار سے آگاہ کیا جائے۔ 6.22 ٹریلین کا بجٹ خسارہ مزید قرضوں سے ہی پورا کیا جا سکتا ہے جو کہ ایک مشکل ٹاسک ہے۔
نئے اعداوشمار کے مطابق جون میں 96 کھرب روپے کا منظور ہونے والا بجٹ کا حجم 112کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے جس میں 17 فیصد اضافے سے ریکارڈ اخراجات متوقع ہیں۔
بجٹ خسارے میں اضافے کی بنیادی وجہ قرضوں کی ادائیگی پر52کھرب روپے کے غیرمعمولی اخراجات ہیں جو کہ اصل بجٹ کے مقابلے میں ساڑھے 12 کھرب روپے یا 32 فیصد زیادہ ہیں۔ اس کے علاہ جون میں سبسڈیز کا تخمینہ 699 ارب روپے لگایا گیا تھا وہ اب 68 فیصد بڑھ کر12کھرب روپے تک پہنچنے کی توقع ہے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران بجٹ خسارہ 55کھرب روپے تھا۔ وفاقی حکومت نے صوبائی سرپلس بھی 750ارب روپے سے کم کرکے 559 ارب روپے کا تخمینہ رکھا ہے۔