اسلام آباد (ویبڈیسک): پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں ملنے کے فیصلے پر اختلافی نوٹ دینے والے ججز نے اپنا اقلیتی فیصلہ جاری کردیا۔جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے فیصلہ جاری کیا، دونوں ججز نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔دونوں ججز کا اختلافی فیصلہ 29 صفحات پر مشتمل ہے۔ اقلیتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ثابت شدہ حقیقت ہے سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، حتیٰ کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔
دونوں ججز نے اقلیتی فیصلے میں اکثریتی فیصلہ تاحال جاری نہ ہونے پرسوالات اٹھا دیے اور اختلافی نوٹ میں کہا کہ مختصر فیصلے کے بعد 15 دنوں کا دورانیہ ختم ہونے کے باوجود اکثریتی فیصلہ جاری نہ ہو سکا، تفصیلی فیصلے میں تاخیر کے باعث ہم مختصر حکم نامے پر ہی اپنی فائنڈنگ دے رہے ہیں۔
اقلیتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی، پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کیلئے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا، پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کیلئے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہوگا۔
جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں اور جسٹس نعیم افغان نے جسٹس امین الدین کے فیصلے سے اتفاق کیا تھا۔
اقلیتی فیصلے میں سنی اتحاد کونسل کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے چار خطوط بھی شامل کیے گئے ہیں۔
اقلیتی فیصلے کے مطابق آزاد امیدواروں کو الیکشن کمیشن، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں طریقہ کار مکمل ہونے کے بعد تسلیم کیا، 39 یا 41 اراکین اسمبلی جس کا مختصر اکثریتی فیصلے میں حوالہ دیا گیا ہے یہ معاملہ کبھی متنازع ہی نہیں تھا، کسی عدالتی کارروائی میں یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی، تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن اور نہ ہی ہائیکورٹ میں فریق تھی۔
اقلیتی فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ میں فیصلہ جاری ہونے تک پی ٹی آئی فریق نہیں تھی، 13 رکنی فل کورٹ کی آٹھ سماعتوں میں سب سے زیادہ وقت کا استعمال ججز کے سوالات پر ہوا، دوران سماعت کچھ ججز نے یہ سوال بھی پوچھا کیا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جا سکتی ہیں؟ کوئی بھی وکیل مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے پر متفق نہ ہوا۔
اقلیتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ کنول شوذب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بھی دلائل میں واضح کہا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے سے اتفاق نہیں کرتا۔
اقلیتی فیصلے کے مطابق 80 اراکین کی قسمت کا فیصلہ سپریم کورٹ نےانہیں سنے بغیر کر دیا، ان اراکین کا سنی اتحاد کونسل میں جانا متنازع تھا ہی نہیں، آزاد اراکین جنہوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی انہیں سنے بغیر سنی اتحاد کونسل سے چھینا گیا، سپریم کورٹ جب کوئی اپیل سنتی ہے تو اختیار سماعت محدود ہوتا ہے جسے اکثریتی فیصلے میں نظر انداز کیا گیا۔
اقلیتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں تو یہ عدالت کا اپنی جانب سے خود سے تخلیق کردہ ریلیف ہوگا، سنی اتحاد کونسل کو قومی و صوبائی اسمبلیوں سے باہر نکال دیا گیا، کسی بھی آئینی ادارے کو یہ نہیں کہا جا سکتا وہ ایسے فیصلے پر عمل کرے جو آئین کے مطابق ہی نہ ہو، 80 اراکین اسمبلی اکثریتی فیصلے کی وجہ سے مؤقف بدلتے ہیں تو یہ ان کے اپنے حلف کی خلاف ورزی ہوگی۔
خیال رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا حکم دے دیا تھا۔
13 رکنی فل کورٹ بینچ کے 5-8 کی اکثریت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف سیاسی جماعت تھی اور ہے، پی ٹی آئی خواتین اور اقلیتی نشستوں کی حقدار ہے، انتخابی نشان نہ ملنے سے کسی سیاسی جماعت کا انتخابات میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی 15 دن میں مخصوص نشستوں کے لیے اپنی فہرست جمع کرائے، 80 میں سے 39 ایم این ایز پی ٹی آئی سے وابستگی ظاہر کر چکے ہیں، باقی 41 ارکان 15 دن میں پارٹی وابستگی کا حلف نامہ دیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ن لیگ اور ارکان اسمبلی نے نظرثانی درخواستیں دائر کی ہیں۔