کراچی (ویب ڈیسک): وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہمیں مقدس گائے کے سلسلے کو روکنا پڑے گا، ہمارے لیے اور تمام جج صاحبان کے لیے یکساں قانون ہونا چاہیے، نیب ہمیشہ سیاسی انجینئرنگ اور غیر جمہوری قوتوں کو جگہ دینے کے لیے بنا ہے اس لیے اس کو بند ہونا چاہیے ورنہ اس میں اصلاحات اور ترمیم کر کے اسے عدلیہ پر بھی لاگو کرنا چاہیے۔کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان کا آئین اس ملک کی عکاسی کرتا ہے، پاکستان ایک وفاقی نظام ہے اور ہمارا آئین اسے وفاقی شکل دلاتا ہے، پاکستان جمہوریت پسندوں کا ملک ہے اور ہمارا آئین جمہوری آئین ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب سے پاکستان کا آئین بنا ہے تو مسلسل ایک کوشش کی جاتی ہے، اس آئین پر حملہ ہوتا ہے، اس آئین پر ڈاکا مارا جاتا ہے، وہ اس لیے کہ کچھ قوتوں سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ پاکستان کے عوام کو ان کا حق ملے، سارے صوبوں کو ان کا حق ملے اور وہ اپنے وسائل کے خود مالک ہوں، ہر شہری کو اپنے ووٹ کی طاقت ہو اور اس کے پاس یہ حق ہو کہ وہ اپنے نمائندے چنیں۔
انہوں نے کہا کہ لیکن کچھ قوتوں کو اس سے بہت تکلیف ہوتی ہے کہ پاکستان کے آئین کی وجہ سے چاہے آپ کسان ہوں یا مزدور، سفید پوش طبقے سے تعلق رکھتے ہوں یا وکیل ہوں، ٹیچر ہوں، فوج میں ہوں یا پولیس میں ہوں، آپ امیر ترین آدمی ہو یا غریب ترین آدمی ہو، آپ کا ایک ہی ووٹ کا حق ہے اور ہر شہری کے پاس برابر کا حق ہے کہ وہ الیکشن کے دن جا کر اپنا حق استعمال کرے اور اس ملک کی حکمرانی کا فیصلہ کرے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پاکستان کے آئین کے لیے کافی امتحان آئے ہیں، ایک ضیاالحق کی شکل میں جب آئین کو پامال کیا گیا اور مذہب کے نام پر پورے ملک کا نقصان ہوا اور ہم آج تک اس کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد جنرل مشرف کا دور تھا اور اس نے ہمارے آئین پر تو حملہ کیا لیکن پورے معاشرے پر جس طریقے سے اس دور کی وجہ سے اثرات مرتب ہوئے، ہم اس کے نقصان بھی بھگت رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2008 سے لے کر 2013 تک ایک ایسا دور آیا تھا جب ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں آخر کار ہماری پوری سوسائٹی میچور ہو چکی ہے، سیاسی جماعتیں بالآخر اس نتیجے پر پہنچیں کہ جب تک ہم آپس میں لڑتے رہیں گے تو مزے تو کوئی اور لے گا، آئین اور جمہوریت ہمیشہ خطرے میں رہے گی اور ملک ترقی نہیں کرے گا۔
بلاول نے کہا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے سیاسی مخالفین کے پاس جاکر فیصلہ کیا کہ ہم میثاق جمہوریت پر عمل کریں گے اور ہمارے آپس کے اختلافات تو رہیں گے لیکن ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہوں گے، ہماری اگر لڑائی ہے بھی تو وہ الیکشن کی حد تک ہو گی اور الیکشن مہم کے دوران ہم ایک دوسرے کی مخالفت کریں گے مگر اس کے بعد جس کی حکومت بنے گی، تو پارلیمانی نظام کو چلنے دیا جائے گا اور ایک نظام کے تحت یہ ملک چلے گا، اس اتفاق رائے میں نہ ہم نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور دوسرے مخالفین کو جیل بھیجا اور جب ان کو موقع ملا تو ایک حد تک یہ نظام چلتا رہا۔
انہوں نے کہا کہ اس ماحول میں ہم آپس میں جمہوریت کی جنگ نہیں لڑ رہے تھے، ہم پاکستان کے عوام پر توجہ دے سکے، ہم 18ویں ترمیم بھی پاس کر کے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھی لا سکے اور پاکستان کے پرانے مسائل کو حل کیا، یہ صرف اس لیے ہو سکا کیونکہ ہماری کوشش تھی کہ ہر ادارہ اپنے دائرے میں رہ کر کام کر سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2008 سے 2013 تک وہ پہلا دور تھا کہ اگر پیپلز پارٹی نے کوئی کام شروع تو مسلم لیگ (ن) نے اسے مکمل ہونے دیا اور یہی وجہ ہے کہ سی پیک چل رہا ہے، اس کی وجہ سے ملک بھر کا انفرااسٹرکچر بہتر ہوا ہے اور ترقیاتی کام ہوا ہے، اس اتفاق رائے کی وجہ سے بہت کوششیں تو کی جاتی رہیں لیکن غیر جمہوری قوتوں کے لیے جگہ کم تھی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کے بعد ایک سلیکٹڈ کو لانچ کیا گیا اور لانچ اس لیے کیا گیا کہ اس اتفاق رائے کو توڑا جائے، مک مکا کا پروپیگنڈا چلا تاکہ غیر جمہوری قوتوں کو زیادہ جگہ ملے اور ان کو ایک پراکسی وزیراعظم ملے، ایک ایسا وزیر اعظم ہو جو قوم کے مسائل، پارلیمان اور جمہوریت میں کوئی دلچسپی نہ لے اور یہاں تک کہ معیشت میں بھی اس کی کوئی دلچسپی نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اس وزیراعظم کو ہٹانے میں کامیاب ہوئے لیکن اس شخص کو لا کر نظام کے ساتھ ساتھ آئین کے خلاف بھی سازش کی گئی، وہ لوگ جو 18ویں ترمیم کا نام لے کر شکایت کرتے ہیں ان کا مسئلہ 18ویں ترمیم نہیں بلکہ 1973 کے آئین سے ہے، وہ پہلے بھی نہیں مانتے تھے اور آج بھی نہیں مانتے۔
ان کا کہنا تھا کہ خان صاحب نے ہر ادارے کو تقسیم کردیا ہے، سیاست کو اس حد تک تقسیم کردیا کہ ہم ایک دوسرے سے بات تک نہیں کر سکتے لیکن ساتھ ساتھ ہماری عدلیہ کو بھی تقسیم کردیا، ہمارے میڈیا کو بھی ایسے تقسیم کردیا کہ آپ ایک چینل کھولیں اور دوسرے چینل کو کھولیں تو دو مختلف پاکستان تھے، اتنا تقسیم کردیا کہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی تقسیم کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے سوچا کہ تحریک عدم اعتماد کے آئینی طریقے کے ذریعے اس غیرجمہوری شخص کا خاتمہ کریں گے اور جمہوریت کی بحالی ہو گی ہم نے دیکھا کہ وہ شخص چلا گیا لیکن سب کچھ وہیں کا وہیں ہے، وہ نقصان جو تین سال میں ہوا پتا نہیں اس کے اثرات ہم کب تک بھگتتے رہیں گے۔
بلاول نے کہا کہ پتا نہیں کب تک ہمارا پارلیمان اور سیاستدان اتنے تقسیم رہیں گے کہ ملک چلانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں، ہماری عدلیہ میں اتنی پولارائزیشن کبھی نہیں دیکھی، بچوں کی طرح لڑتے ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل، ججوں کی تقرری کے عمل پورا کا پورا ادارہ آپس میں بیٹھ کر لڑ رہا ہے، اس کا نقصان کب تک ہو گا مجھے نہیں پتا۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ایک ادارہ تو ہے، ہونا تو نہیں چاہیے لیکن ہمارے آئین میں ایک نظر نہ آنے والا صفحہ تو ہے اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ جتنی جگہ ہم جمہوریت اور پارلیمان کے لیے لیں گے اور سویلین ادارے کو جتنی جگہ دیں گے تو غیرجمہوری قوتوں کو ان ہی کم جگہ ملے گی لیکن جب پارلیمان اور سیاستدان اس حد تک لڑ رہے ہیں کہ آدھا پارلیمان خالی ہے اور آدھا پارلیمان چل رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب عدلیہ اس حد تک لڑ رہی ہے کہ سننے میں آرہا ہے کہ ایک جج صاحب کو دوسرے سے بات کرنے میں بھی مشکلات ہیں، جب میڈیا اس حد تک تقسیم ہے کہ ایک چینل پر ایک سچ اور دوسرے چینل پر دوسرا سچ ہوگا تو پھر اس نظر نہ آنے والے صفحے کے لیے، غیرجمہوری قوتوں کے لیے مزہ ہی مزہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے جو خدشہ ہے کہ ہم اتنے سیاسی، معاشی اور آئینی بحران سے گزر رہے ہیں، جو مسائل اس وقت سامنے آرہے ہیں وہ پاکستان کی تاریخ میں ہم نے نہیں دیکھے اور جیسے ہم آپس میں لڑتے رہیں گے توعوام کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہے گا اور اس وقت عام آدمی کا سب بڑا مسئلہ معیشت، مہنگائی، بے روزگاری اور بھوک ہے، اگر ہم آپس میں لڑتے رہیں گے تو اس کا مقابلہ کیسے کریں گے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم سجھتے ہیں ان تمام مسائل کا حل ہمارے آئین میں آج بھی موجود ہے، اگر ہم صرف اپنے آئین پر عملدرآمد کرنا شروع کردیں تو کافی مسائل حل کر لیں گے، اگر ہم آج ان مسائل کا حل نہیں نکالیں گے تو کل یہ دوگنے ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ جس دہرے معیار کے ساتھ چل رہی ہے تو ہم جیسی جماعتوں کے لیے اس قسم کے اقدامات کا دفاع کرنا کافی مشکل ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ لاڑکانہ کا وزیراعظم ہو تو پھانسی پر چڑھ سکتا ہے، ایسے نہیں ہو سکتا کہ آج تک ہم تو انتظار میں ہیں کہ قائد عوام کو انصاف دو، ریفرنس آپ کے سامنے ہو اور ہمیں جواب نہیں ملے مگر ایک زمان پارک کا بھی وزیراعظم تھا، اس کو ٹانگ میں تکلیف ہو تو ایک ہفتہ عدالت انتظار کرے کہ جناب آپ پہنچیں۔
انہوں نے کہا کہ زمان پارک کا وزیراعظم ہو تو جج صاحبان اپنا ہی مذاق بنا دیں کہ آج سماعت ہوگی نہیں تو گرفتاری، اچھا آج نہیں تو کل ہوگی ورنہ گرفتاری، آج پانچ بجے ہوگی ورنہ گرفتاری، چلیے آٹھ بجے ہوگی ورنہ گرفتاری، آخر آپ آچکے ہیں تو آپ کی بڑی مہربانی، کاغذ پر جعلی دستخط ہو مگر کوئی بات نہیں آپ کو جانے دیتے ہیں، ایسے نہیں چلے گا، دہرا معیار چلے گا اور نہ ہی ہم اسے برداشت کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت گھر بھیجنی ہو تو ایک اخبار کا اداریہ کافی ہو اور خان صاحب کی حکومت بچانی ہے تو آئین کو جس طریقے سے موڑنا پڑے، ازسرنو تحریر کرنا پڑے تو وہ کر لیں گے لیکن لاڈلے کو بچانا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ جو مقدس گائے کے سلسلے کو روکنا پڑے گا، ہماری بحث چل رہی ہے کہ انہوں نے ایک اور مقدس گائے والی قانون سازی منظور کرنی ہے اور کہتے ہیں کہ اگر آپ فوج یا عدلیہ کے کسی شخص کی توہین کریں گے تو پتا نہیں کتنے سال تک آپ گرفتار رہیں گے، مقدس گائے والی قانون سازی ہم کب تک کریں گے، آپ کے لیے اور تمام جج صاحبان کے لیے وہی قانون ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ نیب کے حوالے سے پیپلز پارٹی کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ نیب ہمیشہ سیاسی انجینئرنگ اور غیرجمہوری قوتوں کو جگہ دینے کے لیے بنا ہے، منتخب نمائندوں پر تلوار لٹکانے کے لیے بنا ہے تو اس لیے اس ادارے کو بند ہونا چاہیے، اگر بند نہیں کرنا ہے اور اصلاحات کی گئی ہیں تو جج صاحبان کی اس میں بے انتہا دلچسپی ہے اور وہ نجانے اس میں کیا خوبی دیکھ رہے ہیں، شاید خوبی یہ ہے کہ نیب تو مجھے اور آپ پر لاگو ہے اور ان پر تو لاگو نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا تو مشورہ ہے کہ اگر آپ کو نیب کو بند کرنا ہے تو بے شک کرلیں، نہیں کرنا ہے تو ہم اتنی دلچسپی نہیں رکھتے کہ کس قسم کی اصلاحات آپ کر رہے ہیں لیکن ہماری ایک ترمیم ضرور ہوگی جو میں خود پیش کروں گا کہ نیب کا قانون عدلیہ پر لاگو ہو چاہے وہ جج بیٹھے ہوں یا نہ بیٹھے ہوں، کرپشن ہر جگہ ہے، پارلیمان میں بھی ہے اور عدلیہ میں بھی ہو گی۔
بلاول نے کہا کہ صحیح قانون ہو تو تگڑا چیف جسٹس کرپشن کو ختم کر سکتا ہے اور آپ صحیح جمہوری طریقے سے جمہوری ادارے سے بھی ہٹا سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم یہ مقدس گائے والا نظام چلا رہے ہیں جس میں عام آدمی کے لیے قانون ایک ہوتا ہے اور ہماری مقدس گائے کے لیے دوسرا قانون بنتا ہے تو کم از کم پیپلز پارٹی اس دوغلے نظام کی مخالفت کرے گی اور ہر پاکستانی پر ایک ہی قانون لاگو ہونا چاہیے۔