اسلام آباد (ویب ڈیسک): صدر مملکت عارف علوی نے وزیراعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی توڑ دی جس کے ساتھ ہی وفاقی کابینہ اور حکومت تحلیل ہوگئی۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی مدت ختم ہونے سے 3 روز قبل تحلیل کردی جس کے بعد وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی۔رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کی تحلیل کی سمری گزشتہ روز صدر مملکت کو بھیجی تھی جس پر ڈاکٹر عارف علوی نے دستخط کردیے۔
جہاں تک صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا تعلق ہے تو سندھ اسمبلی کا سیشن جاری ہے جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے بلوچستان اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے گورنر ملک عبدالولی کاکڑ کو سمری بھیجنے کی خبروں کی تردید کردی ہے۔
عبدالقدوس بزنجو نے بتایا کہ ’مجھے بلوچستان اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے ایڈوائس بھیجنے کی جلدی نہیں ہے‘، تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ ممکنہ طور پر 12 اگست (ہفتہ) کو سمری پر دستخط کر سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں عبدالقدوس بزنجو نے یہ بھی واضح کیا کہ نگران وزیراعلیٰ کے لیے فی الحال کوئی نام فائنل نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب حکومت نگران وزیراعظم کا نام حتمی طور پر طے کرنے میں تاحال ناکام ہے، اس حوالے سے گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض کے درمیان متوقع ملاقات نہ ہوسکی جوکہ ایک آئینی تقاضا ہے۔
دونوں آج (جمعرات) کو ملاقات کریں گے، آئین کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ان کے پاس نگران وزیراعظم کا نام حتمی طور پر طے کرنے کے لیے 3 روز کا وقت ہے۔
حکمران جماعتیں نگران وزیراعظم کا نام ظاہر کرنے سے تاحال گریزاں ہیں جو عام انتخابات تک عبوری سیٹ اپ کی سربراہی کریں گے، خیال رہے کہ تازہ مردم شماری کو نوٹیفائی کرنے کے فیصلے کے بعد عام انتخابات مؤخر ہونے کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے۔
نگران وزیراعظم کے لیے کسی نام پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھجوایا جائے گا، اگر کمیٹی کوئی فیصلہ کرنے میں ناکام رہی تو الیکشن کمیشن کے ساتھ شیئر کیے گئے مجوزہ ناموں کی فہرست میں سے نگران وزیراعظم کا انتخاب کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس 2 روز کا وقت ہوگا۔
دریں اثنا نگران وزیراعظم کے عہدے کے لیے امیدواروں کی فہرست میں ایک نئے نام ’جلیل عباس جیلانی‘ کا اضافہ ہوگیا ہے، کہا جارہا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کی جانب سے نگران وزیراعظم کے لیے وزیراعظم شہباز شریف کو تجویز کردہ 3 نامزد امیدواروں میں سے ایک ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے تصدیق کی کہ ان کی پارٹی نے اس عہدے کے لیے جلیل عباس جیلانی کا نام تجویز کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ کسی سیاستدان کو نگران وزیر اعظم بنایا جائے لیکن پارٹی کی یہ بھی خواہش ہے کہ شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے ایک مضبوط شخصیت کو عبوری سیٹ اپ کا سربراہ بنایا جائے۔
تاہم نگران وزیراعظم کے تقرر تک وزیراعظم شہبازشریف بطور نگران وزیراعظم فرائض سرانجام دیں گے، آئین کے آرٹیکل 94 کے مطابق وزیر اعظم کو صدر مملکت اس وقت تک عہدے پر فائز رہنے کو کہہ سکتے ہیں جب تک ان کہ جگہ نگران وزیر اعظم نہیں آجاتا۔
جلیل عباس جیلانی کا نام نگران وزیراعظم کے عہدہ کے لیے ’مضبوط امیدوار‘ کے طور پر ابھرنے سے قبل سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو مضبوط امیدوار سمجھا جارہا تھا، اب سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سابق سیکریٹری خارجہ کا نگران وزیراعظم بننے کا زیادہ امکان ہے۔
دیگر امیدواروں میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد، سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی، عبداللہ حسین ہارون، پیر پگارا اور مخدوم محمود احمد شامل ہیں۔
رات گئے قومی اسمبلی کی تحلیل کے فوراً بعد اسلام آباد کے مختلف مقامات پر فوجی دستے دیکھے گئے، تاہم یہ واضح نہ ہو سکا کہ فوجیوں کی موجودگی سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے تھی یا اس کی وجہ کوئی وی آئی پی موومنٹ تھی۔
وزیراعظم نے 12 اگست کو مدت پوری ہونے سے قبل قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری دستخط کرکے صدر کو منظوری کیلئے بھیجی تھی۔ ایوان صدر کے مطابق صدر مملکت نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی توڑ دی، انہوں نے اسمبلی آئین کے آرٹیکل 58 (1)کے تحت تحلیل کی۔
صدر کے دستخط کرتے ہی قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ تحلیل ہوگئی تاہم نگران وزیراعظم کی تقرری تک وزیراعظم شہباز شریف عہدے پر برقرار رہیں گے۔
قومی اسمبلی تحلیل کے بعد آئین کےآرٹیکل224 اے کے تحت نگران وزیراعظم کا تقرر ہوگا، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نگران وزیراعظم کے لیے مشاورت کریں گے اور اسمبلی تحلیل ہونےکے بعدنگران وزیراعظم کا نام فائنل کرنےکےلیے 3 دن کا وقت ہوگا۔
تین دن میں نام فائنل نہ ہونے پر معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس چلا جائے گا، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اپنے اپنے نام اسپیکر کی پارلیمانی کمیٹی کوبھیجیں گے اور پارلیمانی کمیٹی تین دن کے اندر نگران وزیراعظم کا نام فائنل کرے گی۔
پارلیمانی کمیٹی کے نگران وزیراعظم کا نام فائنل نہ کرنے پر معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا اور الیکشن کمیشن دیے گئے ناموں میں سے دو دن کے اندر نگران وزیراعظم کا اعلان کرے گا۔
اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کمیشن آرٹیکل224 ون کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا، آئین کے مطابق مدت پوری ہونے سے قبل اگر اسمبلی توڑی جائے تو عام انتخابات 90 روز میں کرانے ہوتے ہیں۔
عام انتخابات کے بعدالیکشن کمیشن آئین کے تحت14دن میں نتائج کا اعلان کرے گا۔