کراچی (ویب ڈیسک): کراچی: بابر اعظم کی کپتانی ان دنوں زیرتنقید ہے ، مگر دبئی میں انٹرویو میں وسیم اکرم نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں ہمیں کپتان کو سپورٹ کرنا چاہیے،بابر اعظم کا تجربہ ابھی کم ہے،ان کو ہٹانے سے ٹیم میں کچھ نہیں ہو گا البتہ سپورٹ کرنے سے فرق پڑنا ہے. جبکہ وسیم اکرم نے کہا ہے کہ کرکٹ میں سرفراز احمد جیسا کم بیک بہت کم دیکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک قوم کے طور پر ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی ہم اپنے لیے خود ہی کافی ہیں، جس طریقے سے بعض لوگ بابر اعظم کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں وہ بہت ہی پریشان کن بات ہے، اپنا مذاق اڑانا بند کردیں،اس سے میرا دل بھی دکھتا ہے۔
تینوں فارمیٹ میں قیادت کا بوجھ بانٹنے کیلیے بابر اعظم کو ہٹانے کے سوال پرسابق اسٹار نے کہا کہ یا تو آپ کے پاس کوئی عمران خان، جاوید میانداد یا مائیک بریرلی بیٹھا ہو تو بات سمجھ میں بھی آئے، اب اگر بابر اعظم کا تقرر کیا ہے تو اسے 2،3سال موقع دیں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ بہترین کپتان ثابت ہوں گے۔
وسیم اکرم نے کہا کہ قیادت کرنے سے ہی آتی ہے کوئی نیچرل یا پیدائشی کپتان نہیں ہوتا، وقت کے ساتھ بہتر فیصلوں کی صلاحیت آتی جاتی ہے، ہم کوچز پر اٹیک کرتے ہیں، اسے تو بتانا ہوتا ہے میدان میں کھیلنا تو کرکٹر کا ہی کام ہے،دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے تو تنقید کریں مگر ہم کیوں کرتے ہیں، مجھے تو یہ دیکھ کرہی شرم آتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مجھے کوئی ایسا بیٹر کپتان بتائیں جس نے بیٹنگ پچز نہ بنوائی ہوں، ہم بابر پر تنقید کیوں کررہے ہیں، پیسر شاہین آفریدی میں قائدانہ صلاحیتیں ہیں، انھوں نے لاہور قلندرز کو پی ایس ایل کا چیمپئن بنوایا مگر ابھی انھیں قومی ٹیم کی قیادت سونپنے کی بات کرنا جلد بازی ہوگی،وہ حال ہی میں انجری سے واپس آئے ہیں، تھوڑا پرفارم کریں اور 5سال بعد کپتانی کے بارے میں سوچیں، فی الحال ایک قائد کو مکمل سپورٹ کرنے کی بات کرنا چاہیے۔
وسیم اکرم نے کہا کہ اگر مجھ سے ہی پوچھ لیا جاتا تو بتا دیتا کہ غیر ملکی کوچز کو نہیں آنا،انھیں ڈر ہے کہ بورڈ تبدیل ہوا تو معاہدہ بھی ختم ہوجائے گا،2یا 3سال کیلیے کوئی آئے تو خود کو محفوظ خیال کرے گا، ثقلین مشتاق اور محمد یوسف نے بھی اچھا کام کیا مگر مزید بہتری کیلیے ان کو بھی وقت درکار ہوگا، اگر کوئی غیر ملکی کوچ نہیں مل رہا تو پاکستانی کی خدمات حاصل کریں اور اسے بھرپور سپورٹ بھی کریں۔
فاسٹ بولرز کی کارکردگی کا گراف گرنے کے سوال پر سابق کپتان نے کہا کہ پچز مسئلہ نہیں، ہمارے دور میں بھی ایسی ہی پچز تھیں، وجہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ہے، صرف 4اوور کرنے پر پیسے بھی زیادہ ملیں تو یہی آسان فیصلہ ہوگا، نسیم شاہ، حارث رؤف اور وسیم جونیئر کو فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنا چاہیے،سال میں پی ایس ایل کے سوا بھی 1،2 لیگز ضرور کھیلیں مگر طویل فارمیٹ کے میچز پر بھی توجہ دیں، ہمیں وقت ملتا تو 4ڈے میچز ضرور کھیلتے تھے۔
ہوم گراؤنڈ پر مسلسل شکستوں کے سوال پر انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ ہارنے کا خوف ہے، ہار جیت تو ہونی ہے مگر ڈر نہیں ہونا چاہیے،میں یہ نہیں کہتا کہ گرین ٹاپ پچ ہو مگر تھوڑا باؤنس ضرور ہونا چاہیے،2دن بیٹنگ ہو، تیسرے چوتھے روز ٹرن کرے، ٹیم چاہے 3 دن میں بھی میچ ہارجائے مگر پچ اچھی ہونی چاہیے، ڈیڈ پچز پر اسی طرح کی صورتحال ہوتی ہے،ہوم سیریز کو شائقین کی توجہ حاصل نہ ہوئی، میچز بھی ہم ہارگئے۔
سابق کپتان وسیم اکرم نے کہا کہ میں نے کرکٹ میں سرفراز احمد جیسا کم بیک بہت کم دیکھا، وکٹ کیپر بیٹر نے نیوزی لینڈ کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ٹیموں میں جگہ کیلیے مقابلے کی فضا ہمیشہ خوش آئند ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر سرفراز احمد اور محمد رضوان دونوں پرفارم کرتے ہیں تو ان پر پرفارمنس کیلیے دباؤ ہوگا، ایک ہی ہوگا تو سہل پسندی کا شکار ہوسکتا ہے، اس میں کراچی لاہور کی بات نہیں پاکستان کیلیے ایک مثبت چیز ہے۔
وسیم اکرم نے بتایا کہ جب وہ کپتان تھے تب بھی شہروں کو دیکھنے کے بجائے کارکردگی کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرتے تھے، میں سب کو جانتا ہوں ان کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں آتی، اس سوچ کو ختم کرنا چاہیے کہ کون کس شہر سے ہے۔