کراچی (ہیلتھ ڈیسک): پاکستان میں ہر روز تقریباً سات ہزار بچے مختلف بیماریوں کے باعث جاں بحق ہو جاتے ہیں جن میں سے 150 بچے مختلف پیدائشی نقائص کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔معروف پیڈیاٹرک سرجن اور ایسوسی ایشن آف آئیڈیاٹرک سرجن آف پاکستان کے صدر ڈاکٹر محمد ارشد نے انکشاف کیا کہ بچوں کے کونجینائٹل ڈیفیکٹس یا پیدائشی نقائص پیدائش کے فوراً بعد آپریشن یا سرجری کے ذریعے ٹھیک کیے جا سکتے ہیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں بچوں کے سرجنز کی تعداد 200 سے بھی کم ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ پاکستان میں 15 سال تک کے بچوں کی تعداد 33 فیصد ہے لیکن پاکستان میں ان بچوں کی سرجریز کے لیے بچوں کے سرجنز کی تعداد بہت کم ہے، دوسری جانب امریکا جہاں کی صرف 19 فیصد آبادی 15 سال تک کہ بچوں پر مشتمل ہے وہاں سینکڑوں پیڈیاٹرک سرجنز بچوں کی جنرل اور پیچیدہ سرجریز کے لیے ہمہ وقت دستیاب رہتے ہیں۔
ڈاکٹر ارشد نے بتایا کہ بچوں کے پیدائشی نقائص بچوں میں اموات کی پانچویں بڑی وجہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پیدائشی نقائص کے علاوہ حادثات، گردے میں پتھری، کینسر اور دیگر بیماریوں کے لیے بھی بچوں کے سرجنز کی ضرورت ہوتی ہے مگر بچوں کے سرجنز کی شدید قلت کے باعث پاکستان میں ہر سال تقریباً 26 سے 27 ہزار بچے جاں بحق ہو رہے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ پاکستان میں نجی اور سرکاری شعبوں میں ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے سبب پاکستانی ماہرین امراض اطفال خاص طور پر درجنوں کے حساب سے بیرون ملک چلے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان بچوں کی اموات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر ارشد نے تجویز پیش کی کہ پاکستان کے تمام ضلعی اسپتالوں میں بچوں کے سرجنز کی اسامیاں پیدا کی جائیں تاکہ بچوں کی پیچیدہ آپریشن ضلعی اسپتالوں میں ہی سرانجام دے کر ان کی جانیں بچائی جا سکیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ صرف کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بچوں کے خصوصی اسپتال قائم ہیں جن پر پورے پاکستان سے آنے والے مریضوں کا دباؤ ہوتا ہے اور دیر سے تشخیص کے باعث سیکڑوں قابل علاج بچے امراض کی پیچیدگی کا شکار ہو کر جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر ضلعی اسپتالوں میں بچوں کے سرجنز متعین کیے جائیں تو جلد تشخیص اور فوری علاج کے ذریعے بچوں میں شرح اموات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر دیگر ماہرین صحت کا کہنا تھا کہ پاکستانی ماہرین صحت کو بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے مقامی طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان میں ماہرین صحت کی بڑھتی ہوئی کمی کو روکا جا سکے۔