(ویب ڈیسک) :اسلام آباد: مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں کیا گیا تھا توکام سےکیسے روک دیا؟آج کمیشن کے اجلاس کے دوران اٹارنی جنرل نے گزشتہ روز کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔
اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پتہ تو چلے کہ کون آڈیو جاری کر رہا ہے، اصلی ہیں بھی یا نہیں، ہوسکتا ہے جن لوگوں کی آڈیوز ہیں انہوں نے خود جاری کی ہوں، یا ہوسکتا ہےکہ عبدالقیوم صدیقی نے اپنی آڈیو جاری کی ہو، تحقیقات ہوں گی تو یہ سب پتا چل سکےگا، جج کو پیسے دینے کی بات ہورہی ہے مگر تحقیقات پر اسٹے آجاتا ہے، ججز کے بارے میں آڈیوز آئیں تحقیقات تو ہونی چاہئیں، پرائیویسی کی آڑ میں کیا کسی الزام کی تحقیقات نہیں ہونی چاہیے، مجھے کوئی مرضی کے فیصلے کے لیے رقم آفر کرے تو کیا یہ گفتگو بھی پرائیویسی میں آئےگی؟ کیا راستے پر کوئی حادثہ ہوجائے تو اس کی ویڈیو جاری کرنا پرائیویسی کے خلاف ہوگا؟
سپریم کورٹ کے حکمنامے کی روشنی میں آڈیو لیکس انکوائری کمیشن نےکارروائی روک دی
سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو کام کرنے سے روک دیا
آڈیو لیکس تحقیقات: عمران خان نے جوڈیشل کمیشن کو عدالت میں چیلنج کردیا
چیف جسٹس پاکستان کی ساس کی مبینہ آڈیو لیک سامنے آگئی
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ججز کے حلف میں لکھا ہے کہ فرائض آئین و قانون کے تحت ادا کروں گا، یہ انکوائری کمیشن ایک قانون کے تحت بنا ہے، کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیا، ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں، ہمیں زندگی میں بعض ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جو ہمیں پسند نہیں ہوتے، ہمیں پٹیشنرز بتا رہے ہیں کہ حکم امتناع ہے آپ سن نہیں سکتے، وکلا کوڈ آف کنڈکٹ کو کھڑکی سے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا ہے، ہم بعض کام خوشی سے ادا نہیں کرتے لیکن حلف کے تحت ان ٹاسکس کو ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں، ہمیں اس اضافی کام کا کچھ نہیں ملتا، ہمیں کیا پڑی تھی سب کرنےکی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سانحہ کوئٹہ کا ذکرکرتے ہوئے جذباتی ہوگئے، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس طرح کی دردناک تحقیقات کرنی پڑتی ہیں، اب ہمیں ٹاک شوز میں کہا جائےگا ہم آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، حلف کے تحت اس کمیشن کی اجازت نہ ہوتی تو معذرت کرکے چلا گیا ہوتا، ٹی وی پر ہمیں قانون سکھانے بیٹھ جاتے ہیں، یہاں آکر بتاتے نہیں کہ اسٹے ہوگیا ہے، ایک طرف پرائیویسی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنی آڈیوز پر ٹاک شو میں بیٹھے ہیں، ہم ججز ٹاک شو میں جواب تو نہیں دے سکتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حیران ہوں آپ نے کل ان نکات کو رد نہیں کیا، شعیب شاہین نے میڈیا پر تقریریں کر دیں، یہاں آنے کی زحمت نہ کی، پرائیویسی ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے، کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جاسکتا، باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں؟ آپ نےکل عدالت کو بتایا کیوں نہیں ان کے اعتراضات والے نکات کی ہم پہلے ہی وضاحت کرچکے، ابھی وہ اسٹیج ہی نہیں آئی تھی ، نہ ہم وہ کچھ کر رہے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں کیا گیا تھا توکام سےکیسےروک دیا، انکوائری کمیشن کو سنے بغیر ہی پانچ رکنی بینچ نے آرڈر دے دیا، ہائی کورٹس سپریم کورٹ کے ماتحت نہیں ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ ماتحت عدلیہ اور ایگزیکٹو پر لاگو ہوتا ہے مگر سپریم کورٹ پر نہیں ہوتا، 5 رکنی بینچ کے آرڈر میں فیڈرل ازم کی بات کی گئی، سپریم کورٹ ہائی کورٹس کی نگرانی نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس کے کئی فیصلے کالعدم قرار دیے، بظاہر فیڈرل ازم کو تباہ کیا گیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم کمیشن کی مزید کارروائی نہیں کر رہے، ہم آج کی کارروائی کا حکم نامہ جاری کریں گے۔