اسلام آباد (ویب ڈیسک): سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کےٹرائل کےخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگرکوئی سویلین کسی فوجی کو بغاوت پر اکساتا ہے تو اس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو سکتا ہے، یہ کہنا کہ سویلین کا کبھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا درست نہیں ہے، دیکھنا ہوگا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے جج نے کس بنیاد پرمقدمات فوجی عدالت منتقل کیے۔ گزشتہ روز ان درخواستوں کی سماعت کے دوران نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر فیصلہ نہیں آتا تب تک تمام بینچ غیر قانونی ہیں اور میں اس بینچ کو بینچ تصور نہیں کرتا۔
جسٹس قاضی فائز اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراض کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد چیف جسٹس نے 7 ججوں پر مشتمل نیا بینچ تشکیل دیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں بننے والے 7 رکنی بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس مظاہرنقوی اورجسٹس عائشہ شامل ہیں۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میری درخواست دیگر درخواستوں سے الگ ہے، میں نے درخواست میں آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا، میرا یہ مؤقف نہیں کہ سویلینز کا آرمی ٹرائل نہیں ہوسکتا، سویلینز کے آرمی عدالت میں ٹرائل ہوتے رہے ہیں، میں نے تحریری معروضات بھی جمع کرادی ہیں۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ نے آرمی ایکٹ کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟
فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ میرا یہ مؤقف نہیں ہے کہ آرمی ایکٹ کی کوئی شق غیرقانونی ہے، میرا مؤقف ہے کہ من پسند لوگوں کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے، آرمی ایکٹ کے تحت مخصوص سویلینز کا ٹرائل خلاف آئین ہے۔
وکیل فیصل صدیقی کی دلیل پر جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ دوسرے کیسزمیں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟کن وجوہات کی بناپرسویلینزکا ٹرائل آرمی ایکٹ کےتحت کیاجاتا رہا ہے؟
جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ یاآفیشل سیکرٹ ایکٹ کےتحت توٹرائل تب ہوتا ہےجب بات قومی سلامتی کی ہو، سویلینز نے آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کب کی؟جب آپ آرمی ایکٹ چیلنج نہیں کررہے تو قانون کی بات کریں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ کن جرائم پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگتا ہے؟ آرمی ایکٹ کب عمل میں آتا ہے یہ بتادیں، قانوناً اگرفوج سویلین کی حوالگی کا کہتی ہے توریفرنس وفاقی حکومت کوبھیجاجاتاہے فوج چارج کرسکتی ہے لیکن ٹرائل تو سول عدالت میں چلے گا، بتائیں کمانڈنگ افسرانتظامی جج سے کس بنیاد پرسویلین کی حوالگی کا مطالبہ کرے گا؟ کوئی دستاویز تو دکھادیں جس کی بنیاد پرسویلینزکی حوالگی کا مطالبہ ہوتا ہے۔
جسٹس مظاہر نے استفسار کیا کہ آپ یہ نہیں بتاسکے کہ کن درج مقدمات میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات شامل کی گئیں، یہ بھی بتائیں کہ کمانڈنگ افسرکیسے سویلینزکی حوالگی کا مطالبہ کرسکتا ہے۔
جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کیسے فوج کی جانب سے یہ الزام لگایاگیاکہ ان افراد نےجرم کیا ہے؟ باربارآپ سے سوال کررہے ہیں اورآپ جواب نہیں دے رہے، سول ٹرائل چل رہا ہے توفوج کیسے فیصلہ کرلیتی ہے کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کردو؟ فوج کا اندرونی طریقہ کارکیا ہے جس میں طے ہوتا ہوکہ سویلین کو ہمارے حوالے کردو؟ کیا آرمی اتھارٹیزیہ فیصلہ بھی کرسکتی ہیں کہ سویلین کو ہمارے حوالے کردو؟ اگرکسی کا سول کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہےتوکیا فوج اس کی حوالگی کا کہہ سکتی ہے؟ آپ کےمطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ والاجرم ضروری نہیں کہ آرمی ایکٹ کے تحت ہواہو،کسی کی گرفتاری کیلئے آنے سے پہلے فوج اپنے گھرپرکیا تیاری کرتی ہے یہ بتادیں۔
عدالت کے استفسار پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ یہی تو میری دلیل ہے کہ فوج سویلینزکی حوالگی کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ ضابطہ فوجداری میں دفعات آرمی ایکٹ میں کہاں ہیں؟ اس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مسئلہ فورم طے کرنے کا ہے کہ کہاں ٹرائل ہوگا، فیصل صدیقی کے جواب پر جسٹس یحیٰ آفریدی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن 13 نہ پڑھائیں ؟ آپ نے کہا آرمی ایکٹ کو رہنے دیں طریقہ کار کو دیکھیں، پھر توہمیں انفرادی طورپر ایک ایک شخص کی گرفتاری کو دیکھنا پڑے گا۔
جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے کب سویلینزکی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی منظوری دی، ٹرائل کا فورم کیسے طے ہوتا ہے یہی سوال ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج نے ہی کرنا ہے، فوج انسداد دہشتگردی عدالت میں سویلینزکی حوالگی کی درخواست دےسکتی ہے، فوج کی سویلینزکی حوالگی کی درخواست میں صرف ٹھوس بنیاد نہیں دی گئی،اٹارنی جنرل سے پوچھیں گےٹھوس بنیاد بناکرسویلینزکی حوالگی کی درخواست کیوں نہیں دی۔
وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے خاموشی پر چیف جسٹس عطا بندیال نے کہا کہ آپ ایسا کریں کہ بریک لے لیں۔
جسٹس منصور نے کہا کہ کافی وغیرہ پئیں ، سوالات کے جوابات نہ دینے پرآپ کو جرمانہ دینا پڑے گا۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کردیا۔
سماعت کے دوبارہ آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگرکوئی سویلین کسی فوجی کو بغاوت پر اکساتا ہے تو اس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو سکتا ہے، یہ کہنا کہ سویلین کا کبھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا درست نہیں ہے، دیکھنا ہوگا کہ سویلینزکو فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیارمیں لانے کا کیا طریقہ کاراپنایا گیا،یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے جج نے کس بنیاد پرمقدمات فوجی عدالت منتقل کیے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج نے ہی کرنا ہے، فوج انسداد دہشتگردی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دے سکتی ہے مگرفوج کو سویلینز کی حوالگی میں ٹھوس بنیاد نہیں دی گئی۔
اس دوران سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سویلینز کے ٹرائل کے لیے فوجی عدالت غیر معمولی حالات میں ہی فعال ہوسکتی ہے۔
اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا 21 ویں آئینی ترمیم کےکیس میں عدالت نے قرار دیا کہ فوجی عدالتیں مخصوص حالات کے لیے ہیں، اس فیصلے میں جنگی حالات جیسے الفاظ استعمال کیے گئے اس پر سابق چیف جسٹس کے وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ یہ ان کے علم میں نہیں ہے کہ حکومت کا مؤقف یہ ہوکہ آج کل جنگی حالات ہیں۔، اگر عدالت سمجھتی ہے کہ اکیسویں ترمیم کے فیصلے کی وجہ سے ہاتھ بندھے ہیں تو لارجر بینچ ہی بنالیں جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وہ لارجر بینچ بننے پر بہت کمفرٹیبل ہوں گے۔
عدالت نے درخواستوں پر سماعت پیر 26 جون کی صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی اور چیف جسٹس نے کہا کہ پیر کو سلمان اکرم راجہ کے دلائل سے سماعت کا آغازکیا جائے گا، ازخود نوٹس لیں گے اور نہ جوڈیشل آرڈرکریں گے لیکن تمام چیزیں نوٹ کررہے ہیں۔ کوشش ہوگی کہ اس کیس کا نتیجہ منگل تک نکل آئے۔
گزشتہ روز کی سماعت میں سپریم کورٹ نے 9 مئی واقعات کے بعد سول اور ملٹری تحویل میں موجود افراد کی تعداد بتانےکا حکم دیا۔
گزشتہ روز سماعت کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ اٹارنی جنرل بتائیں، 9 مئی کے واقعات میں کتنی خواتین اور بچے گرفتار ہیں؟ وکلا اور صحافی سول یا فوجی حراست میں ہیں۔
تحریری حکم نامے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سینئر جج جسٹس سردار طارق مسعود کے خود کو بینچ سے الگ کیے جانے اور7 رکنی بینچ کی تشکیل کی وجوہات کا ذکر نہیں کیا گیا۔