واشنگٹن (ٹیکڈیسک): امریکی کوسٹ گارڈ نے ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنے جانے والی چھوٹی آبدوز ٹائٹن کے پانی کے اندر پھٹنے کی وجہ کے لیے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے جس کے نتیجے میں دو پاکستانیوں سمیت اس میں سوار پانچوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق جہاز پر اینگرو کارپوریشن کے وائس چیئرمین شہزادہ داؤد اور ان کا 19 سالہ بیٹا سلیمان، برطانوی مہم جو ہمیش ہارڈنگ، فرانسیسی آبدوز کے ماہر پال ہنری نارجیولٹ اور اوشین گیٹ ایکسپیڈیشنز کے امریکی بانی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر اسٹاکٹن رش سوار تھے جنہوں نے ٹائٹینک کا سفر کرنے کے لیے آبدوز دی اور فی کس ڈھائی لاکھ ڈالر وصول کیے۔
کوسٹ گارڈز نے کہا کہ اس نے ایک میرین بورڈ آف انویسٹی گیشن (ایم بی آئی) تشکیل دیا ہے، جو اس کارروائی اور بالآخر شمالی بحر اوقیانوس میں ہونے والے سانحے کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کرے گا جس نے دنیا بھر کی توجہ مبذول کرلی تھی۔
کوسٹ گارڈ کے چیف تفتیش کار اور تحقیقات کے سربراہ جیسن نیوباؤر نے بوسٹن میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’میرا بنیادی مقصد دنیا بھر میں میری ٹائم ڈومین کی حفاظت کو بڑھانے کے لیے ضروری سفارشات دے کر ایسے واقعات کو روکنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایم بی آئی ابتدائی شواہد جمع کرنے کے پہلے مرحلے میں ہے، جس میں جائے وقوع سے ملبہ ہٹانے کا آپریشن بھی شامل ہے‘۔
جیسن نیوباؤر نے کہا کہ امریکی تحقیقات ’ضرورت کے مطابق‘ شہری یا فوجداری پابندیوں کی ممکنہ پیروی کے بارے میں سفارشات بھی پیش کر سکتی ہیں۔
ٹائٹن کے لاپتا ہونے کی اطلاع گزشتہ اتوار کو دی گئی تھی اور کوسٹ گارڈ نے جمعرات کو کہا تھا کہ آبدوز میں سوار تمام پانچ افراد تباہ کن دھماکے کے بعد ہلاک ہو گئے۔
ٹائٹینک کی کمان سے 500 میٹر کے فاصلے پر سمندری فرش پر آبدوز کا ملبہ پایا گیا تھا جو سمندر کی سطح سے تقریباً چار کلومیٹر نیچے اور نیو فاؤنڈ لینڈ، کینیڈا کے ساحل سے 400 میل دور ہے۔
کینیڈا، جس نے آبدوز کی تلاش میں مدد کی تھی، ہفتے کے روز کہا تھا کہ وہ اپنی تحقیقات کر رہا ہے۔
کینیڈا کے قومی بحری جہاز پولر پرنس کارگو جہاز نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں ٹائٹن کو سمندر میں دھکیلا تھا لیکن آبدوز کو سمندر کی گہرائیوں میں اتارے جانے کے تقریباً ایک گھنٹہ 45 منٹ بعد اس سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔
دھماکے کے اعلان کے بعد کثیر القومی تلاش اور بچاؤ آپریشن ختم کردیا تھا جس نے سیاحتی دستہ کے لاپتا ہونے کے بعد سے دنیا کی توجہ حاصل کر رکھی تھی۔