اٹلی (ویب ڈیسک): سائنسدانوں نے اس وہیل کے سائز کا موازنہ بلیو وہیل کے ساتھ کیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم وہیل کی باقیات بلیو وہیل سے بھی زیادہ بھاری ہوسکتی ہیں، جنہیں زمین پر سب سے بڑی مخلوق کہا جاتا ہے۔قدیم وہیل کی باقیات کی باقیات جنوبی پیرو کے صحرا سے دریافت کی گئیں، سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ وہیل تقریباً 3 کروڑ 90 لاکھ سال پہلے زندہ تھی۔محققین نے بتایا قدیم وہیل کی باقیات 13 سال قبل دریافت ہوئی تھیں اور بہت محنت کے بعد اب اس کا تجزیہ کیا جارہا ہے۔
باقیات دریافت کرنے والی ٹیم کے رکن ڈاکٹر ایلی ایمسن کہتے ہیں کہ ’یہ باقیات درحقیقت 13 سال پہلے دریافت ہوئی تھیں لیکن ان کی جسامت اتنی وزنی اور بڑے تھے کہ انہیں لیما (پیرو کے دارالحکومت) تک پہنچنے میں صرف 3 سال لگے، جہاں سے ان باقیات کا مطالعہ کیا جارہا ہے۔
اس دیوہیکل وہیل کی 18 ہڈیاں برآمد ہوئی ہیں، جن میں 13 ریڑھ کی ہڈیاں، چار پسلیاں اور کولہے کی ہڈی کا حصہ شامل ہے۔
برسلز میں رائل بیلجیئن انسٹی ٹیوٹ آف نیچرل سائنسز کی ساتھی کارکن ڈاکٹر ریبیکا بینیئن بتاتی ہیں کہ ہر ایک ہڈی کا وزن 100 کلوگرام سے زیادہ تھا، یہ انتہائی حیرت انگیز دریافت ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اس وہیل کی لمبائی 20 میٹر (66 فٹ) تھی، جبکہ اس کا وزن 340 میٹرک ٹن تک تھا، جو بلیو وہیل اور سب سے بڑے ڈائنوسار سمیت کسی بھی دوسرے جانور سے زیادہ ہے۔
دوسری جانب آج کی سب سے بڑی مشہور بلیو وہیل کا وزن تقریباً 190 ٹن ہے جبکہ دنیا کے سب سے بڑے ڈائنوسار کا وزن اندازاً 100 ٹن بتایا جاتا ہے۔
اٹلی کی یونیورسٹی آف پیسا کے ماہر حیاتیات جیوانی بیانوچی نے کہا کہ اس وہیل کی بنیادی خصوصیت اس کا وزن ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ ارتقا میں ایسے جاندار پیدا ہوئے تھے جن میں ایسی خصوصیات ہیں جو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔
محققین کا کہنا ہے کہ باقیات کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ وزنی وہیل اپنا زیادہ تر وقت گہرے پانی میں گزارتی تھی، تاہم اس قدیم وہیل کے دماغ کا حصہ یا دانت کی باقیات نہیں ملی، جس سے اس کی خوراک اور طرز زندگی کے حوالے سے معلوم ہوسکے۔
نارتھ ایسٹ اوہائیو میڈیکل یونیورسٹی کے ماہر امراضیات ہنس تھیوسن کہتے ہیں کہ اس طرح کی بڑی اور وزنی وہیل کو دیکھنا بہت ہی دلچسپ اور حیرت انگیز ہے۔