اسلام آباد (ویب ڈیسک): ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے گھریلو ملازمہ رضوانہ پر تشدد کیس میں نامزد ملزمہ سول جج عاصم حفیظ کی اہلیہ سومیہ کی ضمانت خارج کر دی۔کمسن ملازمہ رضوانہ پر تشدد کیس میں نامزد ملزمہ سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری پر سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد جج فرخ فرید کی عدالت میں ہوئی۔
دوران سماعت جج فرخ فرید نے ملزمہ سومیہ عاصم کو روسٹرم پر بلایا اور استفسار کیا کہ سومیہ عاصم کے خلاف کیس کا ریکارڈ کہاں ہے؟
وکیل صفائی نے عدالت کو بتایا کہ ملزمہ سومیہ عاصم جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئی اور اپنی بے گناہی کا اظہار کیا، ریکارڈ میں پولیس نے لکھا کہ ملزمہ سومیہ عاصم نے تشدد نہیں کیا، سومیہ عاصم نے ملازمہ کو واپس بھیجنے کا بار بار کہا، کمسن بچی کو اس کی ماں کو صحیح سلامت دیا گیا، کیا سومیہ عاصم کو جیل بھیجنا ضروری ہے؟
پراسیکیوشن کی جانب سے ملزمہ سومیہ عاصم کی ضمانت خارج کرنے کی استدعا کی گئی جبکہ جج فرخ فرید کا کہنا تھا ملزمہ سومیہ عاصم تو ہر حال میں شامل تفتیش ہونے کی پابند ہے۔
ملزمہ کے وکیل کا کہنا تھا تفتیشی افسر نے تمام پہلوؤں پر تفتیش نہیں کی، کیا تفتیشی افسر نے وقوعہ کی ویڈیو حاصل کی؟ جس پر جج فرخ فرید کا کہنا تھا تاحال کوئی دلیل درخواست ضمانت میں توسیع کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
وکیل صفائی نے کہا کہ مقدمے کی پہلی پانچ لائنیں ہی جھوٹ پر مبنی ہیں، جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ میں یہاں ٹرائل کے لیے نہیں بیٹھا، درخواست ضمانت پر دلائل دیں۔
فاضل جج نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے تک سماعت ملتوی کی جائے، جج فرخ فرید نے درخواست ضمانت پر دلائل دینے کی ہدایت کر دی۔
وکیل صفائی کا کہنا تھا پولیس کو کہا گیا بچی اپنا بیان دینے کی کنڈیشن میں نہیں، سرگودھا تک بچی بلکل ٹھیک گئی، اسے کسی ٹریٹمنٹ کی ضرورت نہیں تھی، تاخیری حربے استعمال کرکے بیان کو تاخیر سے ریکارڈ کرایا گیا، تفتیشی افسر کڑی سےکڑی نہیں ملا پا رہا، جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، والدین اور رشتہ داروں کے پولیس کو دیے گئے بیانات میں تضاد نظر آ رہا ہے، بچی کی طبی رپورٹ کے مطابق بچی کو فریکچر نہیں ہے، سومیہ عاصم پر الزام لگایا گیا کہ بچی کو تیزاب پلایا گیا، بچی کو بس اسٹینڈ پر چھوڑنے سومیہ عاصم گئیں تو انہیں پھنسایا گیا۔
مدعی وکیل نے دلائل میں کہا کہ تفتیشی افسر کو ڈکٹیٹ نہیں کیا جا سکتا کہ تفتیش کیسےکرنی ہے، عدالت بھی تفتیشی افسر کو کوئی ڈائریکشن نہیں دے سکتی، سومیہ عاصم کس بنیاد پر اپنی ضمانت میں توسیع مانگ رہی ہے، کیا عورت کوئی بھی جرم کرلے اور اسے ضمانت دے دی جائے؟ اگر عورت کو ایسے ہی ضمانتیں ملتی رہیں تو معاشرہ ختم ہو جائے گا۔
مدعی وکیل کا کہنا تھا الزام لگایا گیا کہ بچی کے والدین نے بلیک میل کیا، کیوں ہوئے بلیک میل؟ حقیقت ہے کہ بچی کے والدین سے رابطہ کیا گیا اور پیسوں کی آفر کی گئی، بچی کی طبی رپورٹ کو تو آج تک سومیہ عاصم کے وکلا نے چیلنج نہیں کیا، اتنے زیادہ زخم ہیں،کیا کوئی والدین اپنی بیٹی کو اتنا زخمی کر سکتے ہیں؟ کبھی کوئی ماں باپ اپنی بیٹی پراتنا تشدد نہیں کرسکتے۔
بچی رضوانہ کے والدین کے وکیل کا کہنا تھا قانون کے مطابق کمسن بچی کو ملازمہ رکھنا ہی ایک جرم ہے، سول جج اور اہلیہ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ کمسن ملازمہ رکھنا جرم ہے، ماموں اور بچی کی والدہ کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا قانون کے مطابق اگر دلائل پختہ دیے جاتے ہیں تو ملزمہ کو ضمانت نہیں ملتی، طبی رپورٹ کے مطابق بچی رضوانہ کو 14 انجریاں ہوئی ہیں، بچی کے کھوپڑی کے دائیں، بائیں اور پچھلے حصے میں انجری ہے، بچی کی آنکھوں، گال، ہونٹوں اور کمر پر بھی چوٹیں ہیں، ایک نہیں بچی کو متعدد انجریاں ہیں، پسلیوں تک پر انجری ہے، ڈاکٹر نے تو معائنہ کرکے بتانا ہے کہ انجریاں کتنی ہوئی ہیں۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے جج فرخ فرید نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد سومیہ عاصم کی ضمانت خارج کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دیا، ضمانت میں توسیع کی درخواست خارج ہوتے ہی پولیس نے سومیہ عاصم کو گرفتار کر لیا۔
جج فرخ فرید کا پراسیکیوشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا سچ تلاش کرنے میں ڈر نہیں ہونا چاہیے، شواہد ایمانداری سے جمع کریں اور کوئی دباؤ نہ لیں، معاملے کی تفتیش میرٹ پر ہونی چاہیے۔