بٹگرام (ویب ڈیسک): خیبرپختونخوا کے ضلع بٹگرام کی تحصیل الائی میں پاشتو کے مقام پر کیبل کار کی رسی ٹوٹ جانے سے درمیان میں سیکڑوں فٹ بلندی پر پھنسے 6 طلبہ سمیت 8 افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے پاکستان آرمی کے اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کی ایک ٹیم سمیت پاک فوج کا ریسکیو آپریشن جاری ہے۔الائی کے اسسٹنٹ کمشنر جواد حسین نے ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے اپ ڈیٹ کی تصدیق کرتے ہوئے مزید کہا کہ فوج کی ریپڈ رسپانس فورس کے دستے بھی زمین پر موجود ہیں۔جواد حسین نے بتایا کہ آپریشن پاک فوج اور پاک فضائیہ کے 2 ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مسلح افواج کا خصوصی یونٹ کر رہا ہے۔
بٹگرام چیئرلفٹ واقعے سے متعلق پولیس کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق چیئرلفٹ میں 7 طالب علم اور ایک مقامی شخص گورنمنٹ ہائی اسکول بٹنگی جانے کے لیے سوار ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ صبح 7بجکر 45 منٹ کے قریب چیئرلفٹ کا ایک کیبل ٹوٹ گیا جس سے چیئرلفٹ 6ہزار فٹ کی بلندی پر بیچ راستے میں فضا میں معلق ہو گئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ چیئرلفٹ میں ابرار، عرفان، اسامہ، رضوان اللّٰہ، عطااللّٰہ، نیاز محمد، شیر نواز اور گلفراز سوار ہیں۔
اطلاع ملنے پر ڈپٹی کمشنر بٹگرام نے کمشنر ہزارہ سے رابطہ کیا اور ڈپٹی کمشنر نے کمشنر ہزارہ کو ہیلی کاپٹر کا انتظام کرنے کی درخواست کی۔
تازہ ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایس ایس جی کمانڈو کو ہیلی کاپٹر سے نیچے اتار کر اس کو ہوا میں معلق چیئر لفٹ کے بالکل مقابل لے جایا گیا۔
پاک فوج اور پاک فضائیہ کے 2 ہیلی کاپٹر امدادی کارروائی کے لیے جائے وقوع پر موجود ہیں جنہوں نے کیبل کار کے قریب جانے کی 2 بار کوششیں کیں۔
ایک ہیلی کاپٹر کیبل کار کے اوپر پرواز کررہا تھا جب کہ دوسرا بیک اپ کے طور پر کچھ فاصلے پر موجود تھا، ایک کمانڈو نے ہیلی کاپٹر سے کیبل کار کی جانب اترنے کی 2 بار کوشش کی، تاہم بعدازاں ہیلی کاپٹر پیچھے ہٹ گیا۔
جواد حسین کے مطابق ایک فوجی ہیلی کاپٹر نے 15 منٹ تک علاقے کا سروے کیا، اس دوران ریسکیو 1122 کی ٹیمیں کیبل کار کے نیچے جال پھیلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ریسکیو اہلکار شارق ریاض خٹک نے غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ علاقے میں تیز ہواؤں کی وجہ سے ریسکیو مشن انتہائی پیچیدہ ہے، اصل میں اندیشہ یہ ہے کہ ہیلی کاپٹر کے روٹر بلیڈ کیبل کار کو مزید غیر مستحکم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں، علاقے میں غروب آفتاب شام 6 بجکر 48 منٹ پر متوقع ہے جس کے بعد اندھیرا چھا جائے گا۔
جائے وقوع پر موجود شہری جاوید نے تصدیق کی کہ کچھ دیر بعد دوسرا فوجی ہیلی کاپٹر بھی ریسکیو آپریشن کے لیے وہاں پہنچ گیا۔
جواد حسین نے کہا کہ اگر دوسرا ہیلی کاپٹر مسافروں کو ریسکیو کرنے میں ناکام رہا تو ریسکیو 1122 کی ٹیمیں اسنارکل کے ذریعے زمین سے ریسکیو کی کوششیں کریں گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے شانگلہ بیشام سے مقامی لوگوں کو بھی بلایا ہے جو دیامر بھاشا ڈیم کے قریب اسی طرح کے ریسکیو آپریشنز کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔
نجی ٹی وی کے مطابق اسپیشل سروس گروپ (ایس ایس جی) کے کمانڈوز کو بھی علاقے میں تعینات کر دیا گیا ہے۔
یہ واقعہ صبح 7 سے 8 بجے کے درمیان پیش آیا جب طلبہ کیبل کار کے ذریعے اسکول جارہے تھے، اس دوران 2 رسیاں ٹوٹنے سے کیبل کار فضا میں کئی فٹ بلندی پر پھنس گئی۔
اس حوالے سے تفصیلات فی الحال واضح نہیں ہیں کہ کتنی بلندی پر پھنسی ہوئی ہے، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق یہ کیبل کار ایک ہزار سے 2 ہزار فٹ کی بلندی پر پھنسی ہوئی ہے۔
کیبل کار جھانگری ندی کے اوپر محض ایک تار کے سہارے ہوا میں معلق ہے، اطراف میں بلند و بالا پہاڑ اور پتھریلی زمین موجود ہے۔
تحصیل چیئرمین نے بتایا کہ کیبل کار علاقے میں نجی طور پر مقامی لوگوں کو دریا کے پار لے جانے کے لیے چلائی جاتی ہے کیونکہ علاقے میں کوئی سڑک اور پل نہیں ہے۔
جواد حسین نے بتایا کہ ریسکیو 1122 کی ٹیم اور مقامی انتظامیہ موقع پر پہنچ چکی ہیں لیکن وہاں صرف ایک رسی تھی جس پر کیبل کار لٹکی ہوئی ہے اور رسی ٹوٹنے کی صورت میں کیبل کار نیچے گر سکتی ہے۔
مفتی غلام اللہ نے کہا کہ بچوں کی جانیں بہت زیادہ خطرے میں ہیں، وہ کیبل کار میں رو رہے ہیں اور اپنی جان بچانے کی اپیل کر رہے ہیں۔
وادی الائی کے چیئرمین غلام اللہ نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر بار ہیلی کاپٹر جیسے ہی ریسکیو کرنے والوں کو چیئر لفٹ کے قریب لے کر جاتا ہے تو ہیلی کاپٹر کی پنکھوں کی تیز ہوا سے چیئرلفٹ جھول کر توازن کھونے لگتی ہے اور خوف سے بچے چیخنے لگتے ہیں۔
دریں اثنا بچوں کے اہل خانہ بھی جائے وقوع پر پہنچے اور حکومت سے ہیلی کاپٹر بھیج کر بچوں کو محفوظ طریقے سے بچانے کی اپیل کی۔
کمشنر ہزارہ ڈویژن نے خیبرپختونخوا حکومت کو کیبل کار میں پھنسے بچوں کو نکالنے کے لیے ہیلی کاپٹر کا انتظام کرنے کی بھی درخواست کی۔
اسسٹنٹ کمشنر الائی تحصیل جواد حسین نے بتایا کہ وہ ڈی ایس پی الائی اور ریسکیو 1122 کی ٹیموں کے ہمراہ موقع پر موجود ہیں، تاہم اونچائی اور پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے ریسکیو اہلکاروں کے لیے امدادی کارروائی کرنا ممکن نہیں، کیبل کار ایک رسی کے سہارے بلندی پر لٹکی ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے ذاتی طور پر چیف سیکریٹری سے فون پر بات کی اور اصل صورتحال سے آگاہ کیا اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے فضائی ریسکیو آپریشن کا مطالبہ کیا۔
ڈی سی تنویر الرحمٰن نے دعویٰ کیا کہ چیف سیکریٹری نے انہیں فضائی ریسکیو آپریشن کی یقین دہانی کرائی ہے، کچھ دیر میں ہیلی کاپٹر پہنچتے ہی آپریشن شروع کر دیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ہزاروں فٹ اونچائی کی وجہ سے مقامی انتظامیہ اور ریسکیو اہلکاروں کے لیے اس صورتحال سے نمٹنا ممکن نہیں ہے۔
بعدازاں اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ یہ حساس آپریشن ہے جس کے لیے حد درجہ درستی درکار ہے، ہیلی کاپٹر چیئرلفٹ کے قریب نہیں جا سکتا کیونکہ اس کے نتیجے میں پڑنے والے ہوا کے دباؤ کے سبب چیئر لفٹ کو سپورٹ کرنے والی چین ٹوٹ سکتی ہے۔
سابق پائلٹ جواد احمد نے بھی نجی ٹی وی سے گفتگو کے دوران تنویر الرحمٰن کے موقف کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ٹیلی ویژن فوٹیج میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ ہیلی کاپٹر کو تیز ہواؤں کے پیش نظر اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں جدوجہد کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تیز ہوائیں کمانڈو آپریشن کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں، ایسے آپریشن عمومی طور پر شام پانچ بجکر 40 منٹ تک کیے جا سکتے ہیں اور غیرمعمولی حالات میں اس کو 6بجکر 40 منٹ تک توسیع دی جا سکتی ہے۔
انہوں نے قیاس ظاہر کیا کہ ایک چھوڑا ہیلی کاپٹر یہ آپریشن زیادہ موثر طریقے سے انجام دے سکے گا۔
دریں اثنا ٹیلی ویژن پر نشر کی جانے والی فوٹیجز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیبل کار میں پھنسے افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر پہنچ چکا ہے، ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے مقامی ٹیچر ظفر اقبال نے بھی ہیلی کاپٹر پہنچنے کی تصدیق کی ہے۔
کیبل کار میں پھنسے مسافروں میں سے ایک گلفراز نے ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کیبل کار میں سوار ایک طالب علم گزشتہ 3 گھنٹوں سے بے ہوش ہے، بلندی پر پھنسے طلبہ کی عمریں 10 سے 15 سال کے درمیان ہیں۔
20 سالہ گلفراز نے ریاستی حکام پر زور دیا کہ انسانی ہمدردی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری مدد کے لیے فوری کارروائی کی جائے، ہمارے علاقے کے لوگ یہاں کھڑے ہیں اور رو رہے ہیں۔
طلبہ کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ موجود ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے پاس پینے کا پانی تک نہیں ہے، کھانے کی چیزیں کہاں سے آئیں گی؟ پینے کے پانی کی بہت ضرورت ہے، میرے موبائل کی بیٹری بھی کم رہ گئی ہے جبکہ باقی سب کے پاس سادہ موبائل فون ہے۔
دریں اثنا نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ کیبل کار میں پھنسے تمام افراد کو بحفاظت ریسکیو کیا جائے۔
انہوں نے قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ حکام کو تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لانے اور پہاڑی علاقوں میں کیبل کاروں کے لیے حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
علاوہ ازیں نگران وزیراعظم نے پہاڑی علاقوں میں کیبل کاروں کے حوالے سے حفاظتی اقدامات یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔
انہوں نے حکام کو خستہ حال اور حفاظتی معیار پر پورا نہ اترنے والی کیبل کاروں کے حوالے سے سخت اقدامات اٹھانے کی ہدایات بھی جاری کر دیں۔
’ریڈیو پاکستان‘ کے مطابق این ڈی ایم اے نے پی ڈی ایم اے کو بلندی پر پھنسے افراد کو ریسکیو کرنے کے لیے کوآرڈینیشن سپورٹ فراہم کی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ این ڈی ایم اے نے تمام پی ڈی ایم ایز سے ان کے متعلقہ علاقوں میں سیاحتی انفرااسٹرکچر پر سیفٹی آڈٹ کا مطالبہ کیا ہے۔
نگران وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا محمد اعظم خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ بلندی پر پھنسے ہوئے افراد کو بحفاظت ریسکیو کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔
دریں اثنا نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بتایا کہ بٹگرام میں ریسکیو آپریشن جاری ہے۔
اسکول ٹیچر ظفر اقبال نے مزید بتایا کہ بچے گزشتہ 4 سے 5 گھنٹوں سے کیبل کار میں پھنسے ہوئے ہیں، علاقے میں سڑکوں کی کمی کی وجہ سے روزانہ کم از کم 150 طلبہ کیبل کار کے ذریعے اسکول جانے کے لیے یہ خطرناک سفر کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پھنسے ہوئے بچوں کے پاس موبائل فون ہے اور ہمیں پتا چلا ہے کہ ایک طالب علم خوف سے بیہوش ہو گیا۔
دوسری جانب ڈی پی او سونیا شمروز نے علاقے میں کیبل کاروں اور چیئر لفٹ کے کثرت سے استعمال کی وجہ سے ان کی مناسب دیکھ بھال کی ضرورت پر توجہ دلائی۔