سکرنڈ: (ویب ڈیسک): نوابشاہ ڈویژن کے اہم شہر سکرنڈ کے نواحی گاؤں ماڑی جلبانی میں خودکش حملہ آور کی موجودگی کی اطلاع پر پولیس اور رینجرز نے کارروائی کی. واقعے سے متعلق گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ فائرنگ سے نہتے افراد ہلاک ہوئے، جن میںاکن جلبانی اور نیاز جلبانی سمیت 4 افراد شامل ہیں۔ جبکہ ایس ایس پی نواب شاہ کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق سکرنڈ کے قریب ماڑی جلبانی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک ملزم کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی تھی جس کے دوران دیہاتیوں نے پولیس اور رینجرز پر حملہ کر دیا جس میں تین رینجرز اہلکار زخمی ہوئے اور پھر پولیس اور رینجرز کی جوابی فائرنگ میں تین افراد جاں بحق اور پانچ افراد شدید زخمی ہوئے۔
تفصیلات کے مطابق سندھ میں سکرنڈ شہر سے 12 کلومیٹر دور کچے کے قصبے میں پولیس اور رینجرز کی کارروائی کے دوران فائرنگ سے کم از کم تین افراد ہلاک جبکہ پانچ زخمی ہوئے ہیں۔اس واقعے کے بارے میں، جو کچے کے قریب ماڑی جبلانی میں جمعرات کی دوپہر کو پیش آیا، مقامی افراد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا موقف بلکل مختلف ہے۔
ایس ایس پی نواب شاہ کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق سکرنڈ کے قریب ماڑی جلبانی میں ’قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک ملزم کی گرفتاری کے لیے کارروائی کی تھی جس کے دوران دیہاتیوں نے پولیس اور رینجرز پر حملہ کر دیا جس میں تین رینجرز اہلکار زخمی ہوئے اور پھر پولیس اور رینجرز کی جوابی فائرنگ میں تین افراد جاں بحق اور پانچ افراد شدید زخمی ہوئے۔‘
دوسری جانب عالمی نشریاتی ادارے کے مطابق متاثرین نےالزام عائد کیا کہ فورسز نے نہتے افراد پر فائرنگ کی۔اس واقعے کے بعد ہلاک ہونے والوں اور زخمی افراد کو ڈاٹسن پک اپ اور چنگچی رکشوں کے ذریعے نواب شاہ ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔
دوسری جانب ماڑی جلبانی گاؤں کے رہائشیوں نے لاشوں سمیت قومی شاہراہ پر دھرنا دے رکھا ہے جس میں شہر کی سیاسی سماجی تنظیمیں بھی شامل ہو چکی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’دوپہر تقریبا دو بجے کا وقت تھا جب رینجرز اور پولیس کی وردیوں میں ملبوس اہلکار سات آٹھ گاڑیوں میں ان کے گاؤں پہنچے۔‘
گاؤن کے ایک رہائشی حاجی گل جلبانی کا کہنا تھا کہ ’پہلے تو ہم لوگ یہ سمجھے کہ بجلی چوری کے خلاف آپریشن جاری ہے اور شاید یہ اہلکار اسی سلسلے میں آئے ہیں۔ لیکن بعد میں ان کا دوسرا روپ سامنے آیا۔‘حاجی گل جلبانی نے بتایا کہ ’ اہلکار گلیوں اور محلوں میں جانے لگے اور ان کے ساتھ ایک نوجوان لڑکا تھا جس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ وہ اس نوجوان کو گھروں کی نشاندہی کرنے کے لیے کہہ رہے تھے۔‘انھوں نے کہا کہ اس موقعے پر ’مقامی لوگوں نے کہا کہ وہ پردہ دار ہیں اور اپنے گھروں میں پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کو اس طرح داخل ہونے نہیں دیں گے۔‘اسی موقع پر حاجی گل جلبانی کے مطابق مقامی افراد اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔انھوں نے الزام عائد کیا کہ اہلکاروں نے فائرنگ شروع کردی جس میں ان کے چار لوگ ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔
جبکہ مقامی افراد کے موقف کے برعکس پولیس اور رینجرز کا اس واقعے پر موقف بلکل مختلف ہے۔نواب شاہ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کی گرفتاری میں مزاحمت ہوئی جس کے دوران رینجرز اہلکار زخمی ہوئے اور اس کے بعد رینجرز نے فائرنگ کی۔رینجرز کے ترجمان کی جانب سے بھی اس واقعے پر اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سندھ رینجرز اور پولیس نے خفیہ ادارے کی اطلاع پر شرپسند اور جرائم پیشہ افراد کی موجودگی پر آپریشن کیا تھا۔رینجرز کے بیان کے مطابق خفیہ ادارے کی جانب سے ہائی ویلیو ملزمان کی موجودگی کی اطلاع تھی اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ان ملزمان کے پاس دھماکہ خیز مواد اور اسلحہ ہے۔ترجمان کا دعویٰ ہے کہ رینجرز اور پولیس کو دیکھتے ہی شرپسند عناصر نے حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں رینجرز کے چار جوان زخمی ہو گئے۔
رینجرز کا دعوی ہے کہ پولیس اور رینجرز کی جوابی کارروائی میں تین حملہ آور ہلاک ہو گئے۔
متاثرین کا کہنا تھا کہ ’یہاں سارے لوگ چھوٹے کاشت کار اور کسان ہیں۔‘انھوں نے دعوی کیا کہ ’ہلاک یا زخمی ہونے والے کسی ایک بندے پر بھی کوئی ایف آئی آریا کسی تھانے میں کوئی شکایت کی درخواست تک درج نہیں ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر گاؤں میں جرائم پیشہ افراد ہوتے تو کم از کم پولیس کے پاس کوئی ریکارڈ تو موجود ہوتا۔‘
واقعے پر سندھ کی سیاسی تنظیموںبالخصوص قوم پرست تنظیموں اور عوام کی جانب سے سخت رد عمل ظاہر کیا جارہا ہے . واقعے سے متعلق سندھ ترقی پسند پارٹی کے مرکزی چیئرمین ڈاکٹر قادر مگسی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیدھی گولیاں چلاکر معصوم دیہاتیوں کو قتل کرنے کا عمل انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے . یہ عمل نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ ملکی مفاد میںبھی نہیں.
انہوں نے مزید کہا کہ سندھ انصاف چاہتا ہے ، واقعے کی عدالتی تحقیقات ہونی چاہیے .
ادھر قوم پرست جماعت سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر سید زین شاہ نے کہا ہے کہ ان کی جماعت کے ’ووٹروں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‘انھوں نے ایس ایس پی نواب شاہ کے بیان کو مسترد کیا ہے اور مطالبہ کیا کہ ’بے قصور لوگوں کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار کیا جائے۔‘
آخری اطلاعات کے مطابق متاثرین اور مختلف سیاسی تنظیموں کی مقامی قیادت کی جانب سے سکرنڈ میںدھرنا دیا گیا ہے جبکہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے مرکزی صدر سید زین شاہ بھی دھرنے میںپہنچ چکے ہیں.انہوں نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ فورسز نے گھروں سے نکلتے ہوئے نہتے لوگوں پر یکطرفہ سیدھی فائرنگ کرکے اُنہیں قتل کیا ہے . انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے سو مو ٹو ایکشن لینے کی اپیل کی اور متاثرین کو انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا.