چمن (ویب ڈیسک): پاکستان اور افغانستان کے سرحدی حکام کے مابین ہونے والے اہم اجلاس میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی وطن واپسی، دیگر سرحدی انتظامات اور مختلف امور سے متعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔ملکی بڑی انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اجلاس چمن میں باب دوستی کے مقام پر منعقد ہوا، ڈپٹی کمشنر سپین بولدک ملا عبداللہ بشیر اور کمانڈر سرحد محمود احمد نے افغانستان کی حکومت کی نمائندگی کی، جبکہ چمن کے ڈپٹی کمشنر راجا اطہر عباس اور چمن اسکاؤٹس کے فرنٹیئر کور کے بریگیڈیئر عمر جبیر نے اس اجلاس میں پاکستان کی طرف سے نمائندگی کی۔
حکام کا کہنا تھا کہ اجلاس میں سرحدی انتظامات میں درپیش مسائل اور غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی ملک بدری میں سہولیات کی فراہمی کے بارے میں بات چیت کی گئی، جو افغانستان واپس لوٹنے والے ہیں کیونکہ اب پاکستان نے ان افغان شہریوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے جو کئی سالوں سے بغیر مطلوبہ دستاویز کے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔
دونوں ممالک نے بارڈر کراسنگ کے مسائل بالخصوص افغانستان سے چمن علاج کی غرض سے آنے والے مریضوں کو سرحد پار کرنے میں درپیش مسائل کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔
صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک ایک سازگار ماحول برقرار رکھنے اور سرحد کے دونوں اطراف بسنے والی مقامی برادریوں کو درپیش مسائل دور کرنے کے لیے ایک مؤثر حل کی تلاش کے حوالے مشاورت جاری رکھنے پر آمادہ ہیں۔
ڈپٹی کمشنر چمن نے افغان حکام کو مقامی برادری کے مسائل کے حل کے لیے پاکستان کے مکمل تعاون اور مدد کی یقین دہانی کروائی۔
افغان حکام نے اجلاس میں اپنے مطمئن ہونے کا اظہار کیا اور پاکستانی حکومت کو یقین دہانی کروائی کہ وہ دونوں ممالک میں رہنے والے لوگوں کے مسائل کے حل کے لیے تعاون کریں گے۔
دریں اثنا، پاکستان کے یکم نومبر سے درست پاسپورٹ کے ذریعے سرحد پار کرنے کے فیصلے کے خلاف چمن میں 4 روز سے احتجاجی دھرنا جاری ہے۔
اس دھرنے کی کال تمام جماعتوں کے تاجروں کے اتحاد اور سول سوسائٹی کی جانب سے دی گئی تھی، جن کا کہنا تھا کہ وہ نئے سسٹم کے تحت پاسپورٹ اور ویزا کے ذریعے سرحد پار کرنے کے فیصلے کو نہیں مانیں گے۔
مختلف سیاسی جماعتوں، کاروبار اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد دھرنے میں شریک ہوئے، مظاہرین نے چمن اور قندھار کو جوڑنے والی مرکزی سڑک کو بلاک کر دیا۔
مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ وہ اس وقت تک احتجاج ختم نہیں کریں گے، جب تک حکومت پاسپورٹ اور ویزا کے ذریعے سرحد پار کرنے فیصلے کو واپس نہیں لے لیتی۔