اسلام آباد (ویب ڈیسک): سپریم کورٹ نے وقت ضائع کرانے پر بحریہ ٹاؤن (پرائیویٹ) لمیٹڈ پر 10 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے اور اسے یہ رقم سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کو ادا کرنے کی ہدایت کی ہے جو کہ مفت طبی امداد فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ بحریہ ٹاؤن کو اس کے قبضے میں موجود اراضی کا تخمینہ لگانے کے لیے سروے آف پاکستان (ایس او پی) کی جانب سے کیے گئے سروے کے لیے خرچ کی گئی رقم کے برابر رقم حکومت سندھ کو ادا کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔
یہ ہدایات پیر کو سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ 13 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں شامل تھیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 23 نومبر کو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے وکیل سلمان اسلم بٹ کے توسط سے دائر درخواست پر سماعت کی تھی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ 21 مارچ 2019 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بحریہ ٹاؤن کو سندھ کے ضلع ملیر میں 16ہزار 986 ایکڑ اراضی ملنی تھی لیکن اسے صرف 11ہزار 747 ایکڑ ملی، یہ زمین ملنے والی زمین سے 5ہزار 149 ایکڑ کم ہے۔
وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ادارے کو وعدے کے مطابق زمین نہیں ملی اس لیے اس نے اقساط کی ادائیگی روک دی، اس نے سات سال کی مدت میں 460 ارب روپے ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور درخواست کے ذریعے اس بارے میں عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا گیا تھا۔
آرڈر میں کہا گیا کہ سروے آف پاکستان نے زمین کا سروے کیا اور اس کے ڈائریکٹر نے وضاحت کی کہ یہ سروے گلوبل نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم ریسیورز کا استعمال کرتے ہوئے سائنسی طریقے سے بحریہ ٹاؤن کی اپنی سروے ٹیم کی موجودگی میں کیا گیا تھا، سروے کی لاگت 10 لاکھ روپے تھی۔
سروے آف پاکستان کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اصل میں بحریہ ٹاؤن کے پاس کل 19ہزار 931.63 ایکڑ زمین ہے، یہ زمین بحریہ ٹاؤن کے قبضے میں 3ہزار 035.63 ایکڑ غیر مجاز ہے۔
آرڈر میں کہا گیا کہ اس طرح فراہم کردہ اراضی کی کمی کا افسانہ سروے رپورٹ اور بحریہ ٹاؤن کی عدالت میں اپنی فائلنگ سے پوری طرح بے نقاب ہو گیا۔
اس میں کہا گیا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے زمین میں کمی کا الزام لگاتے ہوئے درخواستیں دائر کیں تاکہ ان قسطوں کی ادائیگی سے بچا جاسکے جو اس نے ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
آرڈر میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ لاگو مارک اپ کو چھوڑ کر 166.25 بلین روپے کی رقم اب تک ادا کر دی جانی چاہیے تھی لیکن صرف 24 بلین روپے ادا کیے گئے۔
سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے نام پر نیشنل بینک آف پاکستان کے زیر انتظام اکاؤنٹس میں بیرون ملک سے 136 ملین پاؤنڈز اور 44 ملین ڈالر کی ترسیلات کا حوالہ دیتے ہوئے حکم میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر یہ رقم عدالت کے اکاؤنٹ میں بھیج دی گئی اور سپریم کورٹ کو نیشنل کرائم ایجنسی یوکے کی جانب سے مبینہ طور پر مجرمانہ سرگرمیوں سے حاصل ہونے والی پکڑی گئی رقم کے معاملے میں غیر ضروری طور پر شامل کیا گیا۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن نے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں وہ قسطیں جمع نہیں کرائیں جو اس نے ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
ادائیگیوں کے بعد سپریم کورٹ رجسٹرار کے نام پر کھولے گئے اکاؤنٹ کو بند کردیا جائے گا۔