اسلام آباد(ویب ڈیسک): ٹیکس دہندگان کا پیسہ سرکاری اخراجات سے بچانے کیلئے موجودہ حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی کفایت شعاری کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ جامع تجاویز میں فوج کے ایسے بجٹ میں 15؍ فیصد کٹوتی کا مطالبہ کیا گیا ہے جو غیر عسکری یعنی Non-Combat نوعیت کا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ وزارت دفاع نے اس قومی اہمیت کے معاملے میں اپنا حصہ ڈالنے پر اتفاق کیا ہے کیونکہ ملک کو سنگین مالی اور معاشی بحران کا سامنا ہے۔ کمیٹی کی تجاویز میں کہا گیا ہے کہ نان کامبیٹ دفاعی بجٹ میں 15؍ فیصد کٹوتی کی جائے۔
اس حوالے سے سیکرٹری دفاع کی رائے ہے کہ دفاعی بجٹ میں کوئی بھی کٹوتی کرنے سے قبل وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے تفصیلاً نظرثانی کریں۔
وزیراعظم شہباز شریف کمیٹی کی تجاویز سے پہلے ہی اتفاق کر چکے ہیں اور اگر ان پر عملدرآمد ہوا تو حکمران اشرافیہ، ارکان پارلیمنٹ، ججز، سویلین اور ملٹری افسران ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے جن سہولتوں، مراعات اور تعیشات سے لطف اندوز ہوتے ہیں ان میں بھاری کٹوتی ہو جائے گی۔
تاہم، کفایت شعاری کی اس مہم کیلئے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول وزیراعظم اور ان کی کابینہ، ارکان پارلیمنٹ، ججز، سویلین اور ملٹری بیوروکریسی کے ساتھ سبھی مل کر تعاون کریں۔ کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ تجاویز میں سے چیدہ چیدہ جمعہ کو شایع ہونے والے دی نیوز اور روزنامہ جنگ پیش کی جا چکی ہیں۔
ان تجاویز میں کہا گیا ہے کہ کابینہ کا حجم کم کیا جائے، ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز نہ دیے جائیں، سرکاری خزانے سے کسی کو بھی پانچ لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ پنشن نہ دی جائے، سرکاری افسران کو بڑی گاڑیاں (اسپیشل یوٹیلیٹی وہیکلز یعنی ایس یو ویز) نہ دی جائیں، ریٹائرڈ سرکاری ملازمین، اعلیٰ عدالتوں کے جوڈیشل افسران اور باوردی سروس والوں سے تمام مراعات، سیکورٹی، معاون اسٹاف اور یوٹیلیٹیز واپس لی جائیں۔
تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہیں 15؍ فیصد کم کی جائیں، وفاقی و صوبائی سطح پر تمام وزارتوں، ڈویژنوں، محکموں ماتحت دفاتر، خودمختار اداروں، صوبائی حکومتوں اور بیرون ملک سفارتخانوں وغیرہ کا موجودہ بجٹ 15؍ فیصد کم کیا جائے، تمام سرکاری ملازمین، بیوروکریٹس، ججوں اور مسلح افواج کے افسران کو ایک سے زیادہ پلاٹس نہ دیے جائیں، اگر پہلے ہی ایک سے زیادہ پلاٹ الاٹ اور کوئی اضافی زمین الاٹ کی گئی ہے تو اسے منسوخ کرکے نیلامی کرائی جائے، سی پیک کے تحت خصوصی صنعتی زونز کے علاوہ کوئی نیا گرین فیلڈ پروجیکٹ شروع نہ کیا جائے، بھرتیوں پر پابندی عائد کی جائے اور سب کیلئے سیکورٹی پروٹوکول میں کمی کی جائے۔ پنشن کی حد مقرر کرنے اور دوسرے پلاٹ کی الاٹمنٹ پر پابندی کیلئے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کا تعاون درکار ہوگا۔
اعلیٰ عدالتوں کے ایک ریٹائرڈ جج کو دیگر مراعات اور سہولتوں کے علاوہ ماہانہ دس لاکھ روپے سے زیادہ پنشن ملتی ہے۔ کمیٹی یہ بات جانتی ہے کہ اخراجات کے معاملے میں ہاتھ تھوڑا کھینچنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی تجاویز میں کمیٹی کا کہنا ہے کہ ان پر عملدرآمد مشکل کام ہے لیکن ملک کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات بالخصوص ایسے لوگوں کو کفایت شعاری مہم میں تعاون کرنا ہوگا جو لوگ قومی خزانے سے ادائیگی وصول کرتے ہیں۔
کچھ تجاویز ایسی بھی ہیں جنہیں جمعہ کو شایع ہونے والی خبر کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔ ان میں کہا گیا ہے کہ ہفتے میں ایک دن گھر سے کام کرایا جائے اور دفاتر میں صرف ضروری اسٹاف کو آنے دیا جائے، دن کی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کیلئے اقدامات کیے جائیں، ملک بھر میں مارکیٹس رات 8؍ بجے بند کر دی جائیں، اور توانائی بچانے والے برقی آلات کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ان تجاویز پر عملدرآمد کی روشنی میں کمیٹی کو توقع ہے کہ تقریباً ایک ہزار ارب روپے کی سالانہ بچت ہوگی۔
متوقع سالانہ بچت میں 200؍ ارب روپے سبسڈیوں سے بچت ہوگی، 200؍ ارب روپے کی ترقیاتی بجٹ کی مد میں بچت ہوگی، 55؍ ارب روپے سویلین حکومت چلانے کے اخراجات کی مد میں بچت ہوگی، 60؍ سے 70؍ ارب روپے سنگل ٹریژری اکاؤنٹ متعارف کرانے سے بچت ہوگی، 100؍ ارب روپے متفرق بچت کے نتیجے میں حاصل ہوں گے، 174؍ ارب روپے غیر اسٹریٹجک نوعیت کے سرکاری اداروں سے بچ جائیں گے جبکہ 15؍ فیصد کٹوتی سے نان کامبیٹ نوعیت کے دفاعی اخراجات کی مد میں بچت ہوگی۔