کراچی (ہیلتھ ڈیسک): سائنس دانوں نے طویل جدوجہد اور 60 سال بعد انسانوں اور خصوصی طور پر کم سن بچوں کو معذورکرنے والی بیماری ’پولیو میلائٹس‘ جسے پولیو کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کے تحفظ کی اب تک کی طاقتور ترین ویکسین تیار کرلی۔نئی ویکسین سے قبل بھی دنیا میں پولیو سے تحفظ کی دو ویکسین دستیاب تھیں، جنہیں دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔مذکورہ دونوں ویکسینز کو اورل پولیو ویکسینز (او پی ویز) اور ان ایکٹیویٹڈ پولیو ویکسینز (آئی پی ویز) کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں سے ایک منہ کے ذریعے دی جاتی ہے جب کہ دوسری انجکشن کی طرح لگائی جاتی ہے۔
دنیا میں پہلی بار پولیو سے تحفظ کی انجکشن کی صورت میں لگائی جانے والی ویکسین آئی پی ویز 1950 میں بنائی گئی تھی، جس کے بعد 1960 میں منہ کے ذریعے دی جانے والی ویکسین او پی ویز تیار کی گئی۔
مذکورہ دونوں ویکسین آج تک پاکستان سمیت دنیا بھر میں استعمال ہو رہی ہیں، تاہم زیادہ تر منہ کے ذریعے دی جانے والی ویکسین استعمال کی جاتی ہے، جسے قطرے بھی کہا جاتا ہے۔
لیکن اب ماہرین نے منہ کے ذریعے دی جانے والی پولیو سے تحفظ اور خاتمے کی اب تک کی سب سے طاقتور ویکسین تیار کرلی، جس کی آزمائش کے تمام مراحل بھی کامیاب ہوئے تھے۔
طبی جریدے ’نیچر‘ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی مالی معاونت سے امریکی اور برطانوی ماہرین کی جانب سے ’سپرانجینیئرڈ ویکسین‘ تیار کرلی گئی۔
جریدے کے مطابق مذکورہ ویکسین میں زندہ پولیو وائرس کا انتہائی کمزور حصہ بھی شامل کیا گیا ہے جب کہ اس میں جینیاتی انجنیئرنگ کی ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ مذکورہ ویکسین بھی منہ کے ذریعے دی جائے گی اور یہ ویکسین پولیو کی تمام قسموں پر اثر انداز ہوگی۔
جریدے کے مطابق ’سپرانجینیئرڈ پولیو ویکسین‘ اس وقت دنیا میں موجود پولیو وائرس کی دونوں اقسام یعنی ’ٹائپ ون‘ اور ’ٹائپ تھری‘ پر اثر انداز ہوکر انہیں ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
پولیو وائرس کی بنیادی طور پر تین قسمیں تھیں، جس میں ٹائپ ٹو دنیا سے 2015 میں ختم ہونے کی تصدیق کی گئی تھی جب کہ ٹائپ تھری کے بھی 2019 میں ختم ہونے کا اعلان کیاگیا تھا۔
اس وقت دنیا میں صرف ایک ہی پولیو کی قسم ٹائپ ون موجود ہے جب کہ بدقسمتی سے پاکستان سے تاحال پولیو ختم نہیں ہو سکا۔
ماہرین کے مطابق مذکورہ ویکسین متاثرہ فرد کو دیے جانے کے بعد وہ وائرس کو اس قدر ختم یا تبدیل کردیتی ہے کہ متاثرہ شخص کی جانب سے خارج کیے گئے فضلے میں پولیو وائرس کے تبدیل شدہ اثرات بھی منتقل نہیں ہوتے۔
خیال رہے کہ پولیو کا وائرس آلودہ پانی اور انسانی فضلے کی باقیات سے بھی منتقل ہونے کی طاقت رکھتا ہے۔
مذکورہ ویکسین کو چند سال قبل بنایا گیا تھا اور 2016 میں اس کی آزمائش شروع کی گئی تھی۔
نئی ویکسین کو دنیا کے 150 سے زائد ممالک کے تقریبا 7 کروڑ افراد کو دیا گیا تھا اور اس کی آزمائش کے نتائج بھی حوصلہ کن آئے تھے۔
اب عالمی ادارہ صحت سمیت دیگر عالمی ادارے اور مختلف ریاستوں اور ممالک کے صحت کے ادارے اسے استعمال کرنے کی اجازت دیں گے، تبھی اس کا عام استعمال شروع کیا جائے گا۔