اسلام آباد (ویب ڈیسک): اسلام آباد ہائیکورٹ نے آڈیو لیکس میں عدالت سے غلط بیانی پر پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین اور ممبرز کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 6 ہفتوں میں جواب مانگ لیا اور چار ستمبر کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے آڈیو لیکس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی درخواست پر 25 جون کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔عدالت نے قراردیا کہ لا فل انٹرسپٹ منیجمنٹ سسٹم کے حوالے سے غلط بیانی پر پی ٹی اے چیئرمین اور ممبران کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔
عدالت نے ٹیلی کام آپریٹرز اور پی ٹی اے کے درمیان خط و کتابت کی تفصیلات طلب کرلیں اور پی ٹی اے کو سربمہر لفافے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے حکم میں لکھا کہ ٹیلی کام کمپنیز بھی پی ٹی اے کے ساتھ سسٹم انسٹال کرنے کی سربمہر رپورٹ جمع کرائیں۔
جسٹس بابر ستار نے عدالتی حکم میں لکھا کہ ٹیلی کام صارفین کی سرویلنس کے لیے پی ٹی اے نے ہدایات جاری کیں، ملک بھر کے کل ٹیلی کام صارفین میں سے 2 فیصد کی سرویلنس بغیر کو آفیشل یا ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ہو سکتی ہے اور سرویلنس سینٹر میں لا فل انٹرسیپٹ منیجمنٹ سسٹم کی تنصیب کی بظاہر کوئی قانونی حیثیت نہیں، سرویلنس سینٹر میں مخصوص ایجنسی کی رسائی بغیر نگرانی اور کنٹرول کے ہے لہٰذا ٹیلی کام کمپنیز آئندہ سماعت تک یقینی بنائیں کہ سرویلینس سسٹم تک رسائی نا ہو۔
عدالت نے ملزمان کی سی ڈی آر، لائیو لوکیشن پولیس کے ساتھ شیئر کرنے کی اجازت دے دی۔
اسلام آبادہائیکورٹ نے قراردیاکہ ٹیلی کام کمپنیز آئندہ سماعت تک سی ڈی آر، لائیو لوکیشن وزارت داخلہ کے ایس او پیز کے مطابق شئیر کریں۔
عدالت نے حکم دیا کہ وفاقی حکومت چھ ہفتے میں بتائے کون شہریوں کے ڈیٹا تک رسائی پھر سوشل میڈیا پر ڈیٹا لیک کا ذمہ دار ہے؟ بادی النظر میں وزرائے اعظم، سیاسی لیڈرز، ججز، ان کی فیملیز، بزنس مینوں کی آڈیو ریکارڈنگ سرویلینس کا میکانزم موجود ہےاور آڈیو ریکارڈنگ کے بعد مخصوص سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پھر مین اسٹریم میڈیا پر آتی ہے۔
عدالت نے لکھاکہ سرویلنس سینٹر میں مخصوص ایجنسی کے افراد کی تقریباً چالیس لاکھ موبائل صارفین کی ایک وقت میں کال اور ایس ایم ایس تک رسائی ہو رہی ہے اور اس ایجنسی کا نام عدالت کو بھی نہیں بتایا گیا لہٰذا توقع ہے وزیر اعظم خفیہ اداروں سے رپورٹس طلب کر کے معاملہ کابینہ کے سامنے رکھیں گے۔