کراچی (ویب ڈیسک): اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں رواں برس موسم گرما کے دوران تباہ کن سیلاب اس بات کی واضح یاد دہانی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات مستقبل قریب میں مزید تباہی کا سبب بنیں گے۔
میڈیائی رپورٹ کے مطابق موسم اور ماحولیات پر اقوام متحدہ کی 2022 کی سالانہ جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’رواں برس چند ممالک کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ چند دیگر ممالک تباہ کن سیلاب کا شکار ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’پاکستان میں مون سون کی بارشوں کے سبب شدید سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے بعد اگست میں قومی ایمرجنسی کا اعلان کرنا پڑا، اس دوران ملک کا ایک تہائی حصہ پانی کے اندر ڈوبا نظر آیا اور لاکھوں افراد بےگھر ہوگئے‘۔
اقوام متحدہ 9 جنوری کو جنیوا میں ’کلائمیٹ ریزیلینٹ پاکستان‘ کے موضوع پر ایک عالمی کانفرنس کی میزبانی کرے گا جس میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے میں پاکستان کی مدد کے لیے مختلف آپشنز پر غور کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے زیر انتظام مختلف تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے تازہ رپورٹ میں زمین کے مسلسل گرم ہونے کو ایک بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے اور کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے سبب درپیش ہنگامی صورتحال سے نمٹنے میں انسانوں کی ناکامی پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔
رپورٹ میں زمین میں دبے ایندھن کے استعمال میں کمی اور انسانی ساختہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے جو خشک سالی، سیلاب اور موسم کی شدید صورتحال کا سبب بنتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) کی ایک حالیہ تحقیق کا بھی حوالہ دیا گیا جس کے مطابق 2060 میں دنیا کو شدید گرمی کی لہروں کا بار بار سامنا رہے گا۔
ڈبلیو ایم او کی رپورٹ کے مطابق شدید گرمی کی ان لہروں کا تعلق زمین کے گرم ہونے سے ہے جس کی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں، رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی زمین کے مستقبل کے لیے سنگین خدشات کو جنم دے رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ڈبلیو ایم او کے ’گرین ہاؤس گیس بلیٹن‘ کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں 3 اہم گیسوں (کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹرس آکسائیڈ، اور میتھین) کی ریکارڈ سطح کی تفصیلات بتائی گئی ہیں جن میں گزشتہ 40 برسوں کے دوران ہر سال بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس تبدیلی کا بنیادی سبب انسانی سرگرمیاں ہیں، دنیا کو کم کاربن پر مبنی معیشتوں کی اشد ضرورت ہے لیکن اس کے باوجود یوکرین جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے دنیا کی بڑی معیشتوں نے پرانے پاور پلانٹس دوبارہ کھول لیے اور تیل اور گیس کے نئے سپلائرز کی تلاش شروع کردی۔
سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گوتیرس نے دنیا کی بڑی معیشتوں کے اس عمل کو ’فریب‘ قرار دیتے ہوئے امیر ممالک کو یاد دلایا کہ اگر وہ ماضی میں قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کرتے تو وہ فوسل فیول مارکیٹ میں قیمتوں کے عدم استحکام سے بچ سکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’ملک کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے اقدامات کو نظرانداز کرنے کی دلیل بھی کھوکھلی ہے‘۔
رواں برس جولائی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اعلان کیا تھا کہ صاف اور صحت مند ماحول تک رسائی ایک عالمی انسانی حق ہے، انتونیو گوتیرس نے امید ظاہر کی کہ یہ تاریخی اعلان ماحولیاتی ناانصافیوں کو کم کرنے، تحفظ کے خلا کو ختم کرنے اور لوگوں کو موسمیاتی آفات سے نمٹنے کے لیے بااختیار بنانے میں مدد فراہم کرے گا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ نومبر میں مصر میں ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلی کے سبب پیدا ہونے والی قدرتی آفات اور ان کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے کمزور ممالک کو معاوضہ فراہم کرنے کے لیے ایک فنڈنگ میکانزم قائم کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کمزور ممالک نے اس طرح کے معاوضے کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کئی دہائیاں گزاری ہیں، اس لیے اس اقدام کو اہم پیش رفت کے طور پر سراہا گیا۔
تاہم رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ دیگر اہم مسائل پر بہت کم پیش رفت ہوئی ہے جن میں خاص طور پر زمین میں دبے ایندھن کے استعمال کو ختم کرنا شامل ہے، رپورٹ میں گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے کی ضرورت پر بھی سختی سے زور دیا گیا۔