کراچی (ٹیک ڈیسک): عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کروڑوں افراد کو نقل مکانی پر مجبور کر دے گا، کیونکہ ان کے لیے اپنے آبائی مقامات میں رہنا بہت مشکل ہو جائے گا۔یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی۔جرنل نیچر میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ موجودہ رجحان کو مدنظر رکھا جائے تو رواں صدی کے اختتام تک عالمی درجہ حرارت میں صنعتی عہد کے مقابلے میں 2.7 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
اس اضافے کے نتیجے میں دنیا کے بیشتر ممالک میں اوسط درجہ حرارت انسانی برداشت سے باہر ہو جائے گا اور وہ ریکارڈ گرمی اور موسمیاتی شدت کا سامنا کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
تحقیق کے مطابق 2030 تک ہی 2 ارب افراد کے لیے سالانہ اوسط درجہ حرارت 29 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو جائے گا اور بہت کم برادریاں اتنے درجہ حرارت میں زندگیاں گزارنے کی عادی ہیں۔
محققین نے بتایا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث ایک ارب افراد زیادہ ٹھنڈے مقامات کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوں گے، مگر ان مقامات پر بھی اکثر ہیٹ ویوز اور خشک سالی کا سامنا ہوگا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک برقرار رکھنے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں تو شدید درجہ حرارت کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد میں 80 فیصد کمی لانا ممکن ہے۔
یہ اپنی طرز کی پہلی تحقیق ہے جس میں درجہ حرارت میں اضافے سے انسانی رہائشی مقامات پر مرتب اثرات کا جائزہ لیا گیا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ہزاروں سال سے انسانی آبادیاں مخصوص درجہ حرارت میں پھیل رہی ہیں اور بیشتر افراد ایسے مقامات پر مقیم ہیں جہاں کا اوسط سالانہ درجہ حرارت 13 سے 25 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہوتا ہے۔
اس سے زیادہ یا کم درجہ حرارت بہت زیادہ گرم یا ٹھنڈے موسم کا باعث بنتا ہے جبکہ اموات کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
اسی طرح درجہ حرارت خوراک کی پیداوار اور اقتصادی شرح نمو پر بھی اثرات مرتب کرتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ برداشت سے زیادہ درجہ حرارت مختلف مسائل جیسے اموات میں اضافے، لوگوں کی پیداواری صلاحیت میں کمی، دماغی افعال کی تنزلی، سیکھنے کے عمل پر منفی اثرات، فصلوں کی پیداوار متاثر ہونے اور وبائی امراض کا باعث بنتا ہے۔