لاہور (اسپورٹس ڈیسک): پاکستان اصولوں کی خاطر ایشیا کپ قربان کرنے کو بھی تیار ہے جب کہ پی سی بی نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ ایونٹ پاکستان میں ہی ہوگا۔ایشین کرکٹ کونسل کے اجلاس میں رواں سال ہونے والے ایشیا کپ کی میزبانی پاکستان کو دی گئی تھی، بھارتی کرکٹ بورڈ حکام بار بار اپنی ٹیم ایونٹ میں شرکت کیلیے نہ بھجوانے کے بیانات دیتے رہے۔جواب میں پی سی بی کی جانب سے بھی بھارت میں شیڈول ورلڈکپ میں شرکت سے انکار کا موقف اپنایا جاتا رہا، گذشتہ چند ماہ میں حکام کی متعدد ملاقاتوں کے باوجود ڈیڈ لاک ختم نہیں ہوا۔
آئی سی سی کی میٹنگ کے دوران درمیانی راستہ نکالتے ہوئے ایشیا کپ کا انعقاد پاکستان جبکہ صرف بھارت کے مقابلے کسی نیوٹرل وینیو پر کرانے کی تجویز سامنے آئی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ پاکستان اصولی فیصلہ کر چکا کہ ایشیا کپ میں دیگر ٹیموں کے میچز یہیں ہوں گے مگر بھارت ہائبرڈ ماڈل کے تحت نیوٹرل وینیو پر کھیل سکتا ہے۔
گزشتہ ماہ چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی نجم سیٹھی نے جب اس حوالے سے تجویز پیش کی تو بی سی سی آئی کے سیکریٹری جے شا نے بھی دلچسپی کا اظہار کیا تھا مگر وطن واپس جا کر مخالفت کر دی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پی سی بی موقف پر برقرار رہا تو ایشیا کپ رواں برس نہیں ہو سکے گا اور وہ اس کیلیے تیار بھی ہے، پورا ایونٹ کسی اور ملک میں کرانے کا امکان مسترد کر دیا گیا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ دنوں سری لنکا اور بنگلہ دیشی بورڈ حکام نے غیر رسمی طور پر رابطہ کر کے پاکستان کو ایشیا کپ نیوٹرل وینیو پر کرانے پر قائل کرنے کی کوشش کی جو کامیاب ثابت نہیں ہوئی، آئی لینڈرز تو خود اپنے ملک میں ایونٹ کرانا چاہتے ہیں، یو اے ای بھی تیار بیٹھا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ اگر ابھی مسئلہ حل نہ کیا تو آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا اور چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی میں بھی مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
دوسری جانب بھارت بھی ایشیا کپ کی منسوخی کا ذہن بنائے بیٹھا ہے، اس نے تو خالی ہونے والی ونڈو میں پانچ قومی ٹورنامنٹ کی پلاننگ بھی شروع کر دی ہے، نجم سیٹھی کو رواں ہفتے بعض اہم میٹنگز کیلیے یو اے ای جانا تھا مگر انھوں نے نجی وجوہات کی وجہ سے دورہ ملتوی کر دیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ چند دنوں میں ایشیا کپ کے حوالے سے کوئی فیصلہ سامنے آسکتا ہے، یو اے ای میں مکمل ایونٹ منتقل کرنے پر پی سی بی کو عوامی ردعمل کا بھی خدشہ ہے، میزبانی کسی اور ملک سے تبدیل کیے جانے کی تجویز پہلے ہی مسترد ہو چکی، اگر رواں سال کپ نہ ہو سکا تو پاکستان ٹیم کی ورلڈکپ کیلیے تیاریاں متاثر ہو سکتی ہیں۔